اسد قریشی
محفلین
ایک طویل نظم برائے اصلاح و تنقید:
تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہسنا سکھاؤں میں
کہ پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا
پرندوں کی طرح سے چہکنا سکھاؤں میں
تمہیں میں بادلوں ارٹنا سکھاؤں میں
ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو،
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں
کے نغمے بھی ہونگے
کبھی گرمی، کبھی سردی،
کہیں پتھر، کہیں کانٹے بھی ہونگے
میں تم کو ہر سرد و گرم سے کانٹوں سے
بچا لوں گا کبھی ٹھوکر لگی تو
تمھارے ہاتھ تھاموں گا
مگرتم کو ٹھوکروں سے خود کو
بچانا ہے، خود ہی سنبھلنا ہے،
اندھیروں سے نکلنا ہے
نئے رستے پہ چلنا ہے،
نیا رستہ جو ریشمی خوابوں
کی شاہراہ ہے،
جہاں پر جا بجا،
محبت رنگا رنگ گل کہلاتی ہے
جہاں خوشبو گیت گاتی ہے
جہاں جسموں کی قربت روح
کو سرشار کرتی ہے
جہاں محبت خود سے ہی
محبت ہر بار کرتی ہے
جہاں ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا کرنا
کہ جیسے خوشبو_گل کو گل سے جدا کرنا
جہاں ہر لمحہ سحر آفریں معلوم ہوتا ہے
بہت دلکش بڑا ہی دل نشیں معلوم ہوتا ہے
مگر اس راستے کی انتہا
کبھی بھی
کہیں پر بھی ممکن ہے
بس اک لمحہ ہی لگتا ہے
کہ سب منظر حقیقت کی سرحد پار جاتے ہیں
جہاں پر خواب اپنے جسم سے روح چھوڑ دیتے ہیں
جہاں الفت کے سب ہی راستے اپنا رخ موڑ لیتے ہیں
جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے ٹکراتے ہی دم توڑ دیتے ہیں
جہاں تاریکیاں بس ایک ہی لمحے میں ڈیرے جماتی ہیں
جہاں تا عمر آنکھیں آنسو بہاتی، سوکھ جاتی ہیں
جہاں پر جسم سے جاں نکل جاتی ہے پھر بھی دل دھڑکتا ہے
جہاں پر روح کے زخموں سے بس لہو ٹپکتا ہے
جہاں لب پر دعائیں آکے پھر سے لوٹ جاتی ہیں
جہاں پر بے یقینی کی صدائیں ناچتی، گاتی ہیں اور پھر اک دن
یہ سب منظر، یہ سب جذبے، یہ سب لمحے یہ سب آہیں، صدائیں،
بس اک پل میں، اک چھناکے سے دم توڑ دیتے ہیں
یہ مٹی سے بنا جسم چھوڑ دیتے ہیں
مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی
ہمیشہ رو رو کے سسکتے ہوئے کاٹیں
چلو پھر ہم کیوں نہ اک دوسرے کے دکھ درد ہی بانٹیں
چلو ہم اک دوسرے کو جینا سکھاتے ہیں
رنگوں سے، تتلیوں سے گلوں سے
یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو سپنے دکھاتے ہیں
"چلو سپنے دکھاتے ہیں"
چلو آؤ!تمہیں سپنے دکھاؤں میں
تمہیں ہسنا سکھاؤں میں
کہ پھولوں کی طرح کھلنا مہکنا
پرندوں کی طرح سے چہکنا سکھاؤں میں
تمہیں میں بادلوں ارٹنا سکھاؤں میں
ہمارے اس سفر میں
پھول، کلیاں، تتلیاں، جگنو،
پہاڑوں، آبشاروں، ندی، جھرنوں
کے نغمے بھی ہونگے
کبھی گرمی، کبھی سردی،
کہیں پتھر، کہیں کانٹے بھی ہونگے
میں تم کو ہر سرد و گرم سے کانٹوں سے
بچا لوں گا کبھی ٹھوکر لگی تو
تمھارے ہاتھ تھاموں گا
مگرتم کو ٹھوکروں سے خود کو
بچانا ہے، خود ہی سنبھلنا ہے،
اندھیروں سے نکلنا ہے
نئے رستے پہ چلنا ہے،
نیا رستہ جو ریشمی خوابوں
کی شاہراہ ہے،
جہاں پر جا بجا،
محبت رنگا رنگ گل کہلاتی ہے
جہاں خوشبو گیت گاتی ہے
جہاں جسموں کی قربت روح
کو سرشار کرتی ہے
جہاں محبت خود سے ہی
محبت ہر بار کرتی ہے
جہاں ہاتھوں کو ہاتھوں سے جدا کرنا
کہ جیسے خوشبو_گل کو گل سے جدا کرنا
جہاں ہر لمحہ سحر آفریں معلوم ہوتا ہے
بہت دلکش بڑا ہی دل نشیں معلوم ہوتا ہے
مگر اس راستے کی انتہا
کبھی بھی
کہیں پر بھی ممکن ہے
بس اک لمحہ ہی لگتا ہے
کہ سب منظر حقیقت کی سرحد پار جاتے ہیں
جہاں پر خواب اپنے جسم سے روح چھوڑ دیتے ہیں
جہاں الفت کے سب ہی راستے اپنا رخ موڑ لیتے ہیں
جہاں سپنے حقیقت کی چٹانوں سے ٹکراتے ہی دم توڑ دیتے ہیں
جہاں تاریکیاں بس ایک ہی لمحے میں ڈیرے جماتی ہیں
جہاں تا عمر آنکھیں آنسو بہاتی، سوکھ جاتی ہیں
جہاں پر جسم سے جاں نکل جاتی ہے پھر بھی دل دھڑکتا ہے
جہاں پر روح کے زخموں سے بس لہو ٹپکتا ہے
جہاں لب پر دعائیں آکے پھر سے لوٹ جاتی ہیں
جہاں پر بے یقینی کی صدائیں ناچتی، گاتی ہیں اور پھر اک دن
یہ سب منظر، یہ سب جذبے، یہ سب لمحے یہ سب آہیں، صدائیں،
بس اک پل میں، اک چھناکے سے دم توڑ دیتے ہیں
یہ مٹی سے بنا جسم چھوڑ دیتے ہیں
مگر یہ جسم مٹی کا، اسے مٹی میں ملنا ہے
قفس سے روح کو اک دن نکلنا ہے
تو پھر ہم کیوں یہ زندگی
ہمیشہ رو رو کے سسکتے ہوئے کاٹیں
چلو پھر ہم کیوں نہ اک دوسرے کے دکھ درد ہی بانٹیں
چلو ہم اک دوسرے کو جینا سکھاتے ہیں
رنگوں سے، تتلیوں سے گلوں سے
یہ جیون سجاتے ہیں
چلو اک دوسرے کو سپنے دکھاتے ہیں