ایک عجیب غزل،'' اب جو اُجڑا ہوں تو میٹھے کو زہر لکھوں گا''

اب جو اُجڑا ہوں تو میٹھے کو زہر لکھوں گا
رات کو رات نہیں میں تو سحر لکھوں گا
ایک تنکا بھی نہ تھا اور سفینہ ڈوبا
ناخداوں کا اسے میں تو قہر لکھوں گا
کوٴی موزوں ہی نہ کر پاٴے کبھی اپنا کلام
شاعرو غیض میں ہوں، ایسی بحر لکھوں گا
حال ابتر ہے، سیاست میں مگر پاوں مقام
بس شہد کی اسے بہتی میں نہر لکھوں گا
اُس کے گالوں کی لطافت کی میں کھاوں گا قسم
اُس کی زلفوں کے ہی ساٴے میں دہر لکھوں گا
جی میں آٴے جو مرے، وہ ہی مجھے کرنا ہے
خشک ساحل کو بھی اظہر میں بحر لکھوں گا
 

الف عین

لائبریرین
اس کے قوافی سارے غلط ہیں کیونکہ غلط تلفظ سے بندھے ہیں، صرف ایک ’سحر‘ درست ہے بحر کے مطابق، اس میں بھی س اور ح پر زبر ہیں، اس لئے وہ بھی آؤٹ!! باقی سارے الفاظ میں درست تلفظ میں ہ ساکن ہے، فَعَل کے وزن پر کوئی قافیہ نہیں آ سکتا۔
 
Top