محمد اظہر نذیر
محفلین
آئنہ آنکھو، مرا عکس وجود
ڈوب اُبھرا ہے، نہ مل پائی حدود
چشم آہو تری وحشت کو سلام
منجمد ہے یہ، نہیں ٹوٹا جمود
کوئی معنیٰ ہی نہیں رکھتے ہیں اب
عشق میں کیا ہے زیاں، کیا ہے کشود
میں صفائی میں وہاں کہتا بھی کیا؟
خود انہی ہاتھوں مٹائے تھے شہود
ہیکل خاکی کے برعکس ہے یہ روح
منحصر عشق حقیقی پہ نمود
توڑنا اچھا نہیں اظہر یہ پھول
راہ الفت، ترے قرباں ہیں ورود