ایک غزل، تبصرہ، تنقید اور اصلاح کے لیے،'' آئنہ آنکھو، مرا عکس وجود''

آئنہ آنکھو، مرا عکس وجود​
ڈوب اُبھرا ہے، نہ مل پائی حدود​
چشم آہو تری وحشت کو سلام​
منجمد ہے یہ، نہیں ٹوٹا جمود​
کوئی معنیٰ ہی نہیں رکھتے ہیں اب​
عشق میں کیا ہے زیاں، کیا ہے کشود​
میں صفائی میں وہاں کہتا بھی کیا؟​
خود انہی ہاتھوں مٹائے تھے شہود​
ہیکل خاکی کے برعکس ہے یہ روح​
منحصر عشق حقیقی پہ نمود​
توڑنا اچھا نہیں اظہر یہ پھول​
راہ الفت، ترے قرباں ہیں ورود​
 

الف عین

لائبریرین
اس کے تو کئی اشعار میری ناقص سمجھ سے باہر ہیں!!
دو مصرع بحر سے خارج ہیں
ہیکل خاکی کے برعکس ہے یہ روح
اور
توڑنا اچھا نہیں اظہر یہ پھول
روح کی ح گرائی جا سکتی ہے، لیکن اس سے پہلے ’ہے یہ‘ میں ہی فعلن مکمل ہو جاتا ہے۔ ’ہے یہ روح‘ بر وزن فعلن کہنا درست نہیں، اسی طرح ’اظہر یہ پھول‘ بھی۔ مرے خیال میں ان دونوں میں تم ’یہ‘ کی ہ کو ساقط کر رہے ہو؟؟

معنوی طور سے فی الحال صرف ایک مصرع پر اظہار رائے کروں گا۔
چشم آہو تری وحشت کو سلام
آہو کی چال میں وحشت ہوتی ہے، رم آہو کہا جاتا ہے۔ آنکھیں تو محض حسین ہوتی ہیں بڑی بڑی!
 

الف عین

لائبریرین
دو قوافی پر مزید رائے۔
کشود۔۔۔ سود کی جگہ استعمال کیا ہے تم نے۔ یہ بست و کشود تو ہوتا ہے، اور سود و زیاں ہوتا ہے، کشود و زیاں؟
شہود؟ اور وہ بھی بطور جمع۔ شاید تم نے ان نشانات کے لئے استعمال کیا ہے جن سے تفتیش کی جاتی ہے۔ شہود کے درست معانی تو محض ظاہر ہونے کے ہیں۔
 

شوکت پرویز

محفلین
محمد اظہر نذیر صاحب آئیں تو بحر کے بارے میں فیصلہ ہو پائے کہ انہوں نے کس بحر میں لکھی ہے :)
سوائے ایک دو مصرعوں کے، تمام مصرعے دو بحر پر پورے اتر رہے ہیں۔۔۔

فاعلن فاعلتن فاعلتن:
ہیکل خاکی کے برعکس ہے یہ روح​
توڑنا اچھا نہیں اظہر یہ پھول​
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن:
ہیکل خاکی کے برعکس ہے یہ روح​
(دوسرے اور آخری اشعار میں تری اور ترے کو تیری اور تیرے کرنے سے اور پہلے شعر میں "عکس وجود" کو زیرِ اضافت کے ساتھ "عکسِ وجود 'عک + سے + و + جو + د' ماننے کے بعد یہ اشعار بھی اس بحر میں آ جاتے ہیں؛)

اظہر صاحب سے ایک اور گزارش ہے کہ زیرِ اضافت (shift + >) بھی ٹائپ کِیا کریں، یہ بھی املا کی ایک بہت ضروری چیز ہے، خاص کر شعر میں، کہ اس پر وزن منحصر ہوتا ہے

استاد الف عین صاحب
 
اس کے تو کئی اشعار میری ناقص سمجھ سے باہر ہیں!!
دو مصرع بحر سے خارج ہیں
ہیکل خاکی کے برعکس ہے یہ روح
اور
توڑنا اچھا نہیں اظہر یہ پھول
روح کی ح گرائی جا سکتی ہے، لیکن اس سے پہلے ’ہے یہ‘ میں ہی فعلن مکمل ہو جاتا ہے۔ ’ہے یہ روح‘ بر وزن فعلن کہنا درست نہیں، اسی طرح ’اظہر یہ پھول‘ بھی۔ مرے خیال میں ان دونوں میں تم ’یہ‘ کی ہ کو ساقط کر رہے ہو؟؟

معنوی طور سے فی الحال صرف ایک مصرع پر اظہار رائے کروں گا۔
چشم آہو تری وحشت کو سلام
آہو کی چال میں وحشت ہوتی ہے، رم آہو کہا جاتا ہے۔ آنکھیں تو محض حسین ہوتی ہیں بڑی بڑی!
اُستاد محترم ،
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن آخر میں فاعلان بھی آ سکتا ہے
ہے ک لے خا ۔۔۔۔ کی ک بر عک ۔۔۔ سہ ی رو ح
تو ڑ نا اچ ۔۔۔۔۔ چا ن ہی اظ ۔۔۔۔ ہر ی پو ل

ہرنی کی آنکھوں میں ایک وحشت سی رہتی ہے حتی کہ وہ ایک لہظہ بھی چین نہیں پاتی جبکہ کچھ بھی کر رہی ہو ادھر اُدھر دیکھتی رہتی ہے
پھر بھی جیسا آپ کا حکم ہو ، سر آنکھوں پر
 
دو قوافی پر مزید رائے۔
کشود۔۔۔ سود کی جگہ استعمال کیا ہے تم نے۔ یہ بست و کشود تو ہوتا ہے، اور سود و زیاں ہوتا ہے، کشود و زیاں؟
شہود؟ اور وہ بھی بطور جمع۔ شاید تم نے ان نشانات کے لئے استعمال کیا ہے جن سے تفتیش کی جاتی ہے۔ شہود کے درست معانی تو محض ظاہر ہونے کے ہیں۔

جی بالکُل درست فرمایا آپ نے کشود من حیث اللفظ بمعنیٰ سود کے ہے اور لغت میں ایسے ہی درج ہے ۔ گویا فائدہ
شہود شاھد کی جمع اور جمع الجمع ہے ۔۔۔ یہاں مُراد ہے کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے گواہوں کو مار دیا ہے ۔ اور ویسے شہود اب غلط العام طور پر نشانات کے بمعنیٰ بھی لیا جاتا ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا
 
محمد اظہر نذیر صاحب آئیں تو بحر کے بارے میں فیصلہ ہو پائے کہ انہوں نے کس بحر میں لکھی ہے :)
سوائے ایک دو مصرعوں کے، تمام مصرعے دو بحر پر پورے اتر رہے ہیں۔۔۔

فاعلن فاعلتن فاعلتن:
ہیکل خاکی کے برعکس ہے یہ روح​
توڑنا اچھا نہیں اظہر یہ پھول​
فاعلاتن فاعلاتن فاعلن:
ہیکل خاکی کے برعکس ہے یہ روح​
(دوسرے اور آخری اشعار میں تری اور ترے کو تیری اور تیرے کرنے سے اور پہلے شعر میں "عکس وجود" کو زیرِ اضافت کے ساتھ "عکسِ وجود 'عک + سے + و + جو + د' ماننے کے بعد یہ اشعار بھی اس بحر میں آ جاتے ہیں؛)

اظہر صاحب سے ایک اور گزارش ہے کہ زیرِ اضافت (shift + >) بھی ٹائپ کِیا کریں، یہ بھی املا کی ایک بہت ضروری چیز ہے، خاص کر شعر میں، کہ اس پر وزن منحصر ہوتا ہے

استاد الف عین صاحب

جناب شوکت پرویز صاحب بالکُل درست اندازہ لگایا آپ نے ، اور شکر گزار ہوں کہ زیر اضافت کا طریقہ آپ نے بتایا
آپ نے یہ بھی درست فرمایا کہ جلدی میں تری اور ترے لکھ دیا رات کو ، شعر آئے جا رہے تھے اور لکھتا گیا :angel:
 
آئنہ آنکھو، مرا عکس وجود​
ڈوب اُبھرا ہے، نہ مل پائی حدود​
چشم آہو تیری وحشت کو سلام​
منجمد ہے یہ، نہیں ٹوٹا جمود​
کوئی معنیٰ ہی نہیں رکھتے ہیں اب​
عشق میں کیا ہے زیاں، کیا ہے کشود​
میں صفائی میں وہاں کہتا بھی کیا؟​
خود انہی ہاتھوں مٹائے تھے شہود​
ہیکل خاکی کے برعکس ہے یہ روح​
منحصر عشق حقیقی پہ نمود​
توڑنا اچھا نہیں اظہر یہ پھول​
راہ الفت، تیرے قرباں ہیں ورود​
 
اظہر صاحب سے ایک اور گزارش ہے کہ زیرِ اضافت (shift + >) بھی ٹائپ کِیا کریں، یہ بھی املا کی ایک بہت ضروری چیز ہے، خاص کر شعر میں، کہ اس پر وزن منحصر ہوتا ہے
میرے لیپ ٹاپ سے زیر نہیں ٹائپ کیا جا رہا اب بھی کہ علامت
(shift + >)کرنے کے بعد بھی کچھ نہیں ہو رہا :sad:
 

شوکت پرویز

محفلین
دراصل وہ < + Shift ہے، اسے ٹرائے کریں، وہ انگریزی سے اردو میں پیسٹ کرنے سے greater than بدل کر smaller than بن گیا۔۔۔ :(

اور اگر اب بھی ٹائپ نہ ہو پائے تو ( ِ ) اسے کاپی کر کے دیکھیں، یہ تو کام کرے گا۔۔۔ ان شاء اللہ

محمد اظہر نذیر صاحب
 
اس طرح صرف "الف" کا وصل کِیا جا سکتا ہے، "ہ" کا نہیں۔۔
ہَے کَ لِ خا | کی کِ بَر عک | س ہے یِ روح​
"س" زیادہ ہی ہے،مصرعہ بدلنا پڑے گا۔۔۔ :)
یوں دیکھیے تو​
آئنہ آنکھو، مرا عکس وجود​
ڈوب اُبھرا ہے، نہ مل پائی حدود​
چشم آہو تیری وحشت کو سلام​
منجمد ہے یہ، نہیں ٹوٹا جمود​
کوئی معنیٰ ہی نہیں رکھتے ہیں اب​
عشق میں کیا ہے زیاں، کیا ہے کشود​
میں صفائی میں وہاں کہتا بھی کیا؟​
خود انہی ہاتھوں مٹائے تھے شہود​
روح خاکی جسم سے ہے مختلف
منحصر عشق حقیقی پر نمود
توڑنا اچھا نہیں اظہر یہ پھول​
راہ الفت، تیرے قرباں ہیں ورود​
 

الف عین

لائبریرین
شوکت پرویز کا شکریہ، میری یہ غلط فہمی رفع کرنے کے لئے کہ یہ فالاتن مفاعلن فعلن ہے۔ اب غزل واقعی مکمل بحر میں ہے اور درست ہے۔ کشود کے بارے میں مین وہی کہوں گا کہ عام طور پر یہ بست کے ساتھ آتا ہے، اور معنی کھلنا آتے ہیں۔ سامنے کے یہی معانی ہیں۔ لغت میں موجود ہونا ہی کافی نہیں۔ میرا اب بھی خیال یہی ہے کہ سود قافیہ باندھو تو شعر آسانی سے سمجھ میں آ سکے۔ شہود والی بات مانی جا سکتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر وہی کہوں گا کہ اکثر اشعار اب بھی نا قابل فہم ہیں۔ خاص کر آخری دو اشعار
 
Top