لو، ابھی نمٹا دیا اسے بھی
بدنام ہو چلا ہوں، مگر نام ہے مرا
شہرت کا قافلہ کوئی دو گام ہے مرا
//درست
سکہ نہیں ہے وقت کا رائج بزار میں
حاکم ہوں ایک دن کو بنا، چام ہے مرا
//بزار اور چام دونوں الفاظ غلط ہیں۔ اور پھر چام ’ہے مرا‘ سے مراد؟ تلمیح تو درست ہے، یکن بات نہیں بنی
جی بہت بہتر جناب، تبدیل کئے دیتا ہوں شعر
اس کے بغیر دال گلے گی نہیں تری
رشوت سمجھ رہے ہو جسے، دام ہے مرا
ایسا نہیں کہ مجھ میں کوئی رنگ ہی نہ ہو
گورا نہیں تو کیا ہے، سیہ فام ہے مرا
//مری کیا شے سیہ فام ہے؟ محاورہ یہ تو ہوتا ہے کہ میں سیہ فام ہوں یا میرا رنگ سیاہ ہے۔
جی یہ شعر بھی تبدیل کئے دیتا ہوں محترم اُستاد
کرتا ہوں دوستی میں فقط خاص خاص سے
دشمن یہ راستے میں پڑا عام ہے مرا
حاکم بھی کھیلتا ہے مری گود میں یہاں
اُس کے لبوں سے لپٹا ہوا جام ہے مرا
// شعر سمجھ میں نہیں آیا۔ گود میں کھیلنے سے دو مبطلب نکل سکتے ہیں، ایک تو کہنے والے کی بزرگی، ار دوسرے گود میں کھیلنے والے کا اس کے احکام کی تعمیل میں مستعد رہنا۔
اسے اگر یوں کہوں جناب تو؟
جرات ہی کیا ہے اُسکی، جو بولے مرے خلاف
اُس کے لبوں سے لپٹا ہوا جام ہے مرا
آنکھوں پہ باندھ لی ہے یہ پٹی فریب کی
کیسے دکھائی دے وہ جو انجام ہے مرا
// آنکھوں پہ باندھ رکھی ہے پٹی فریب کی
کہو، ’یہ پٹی‘ کسی مخصوص پتی کی نشان دہ کرتا ہے۔
جی بہت بہتر
آنکھوں پہ باندھ رکھی ہے پٹی فریب کی
کیسے دکھائی دے وہ جو انجام ہے مرا
اظہر کبھی بھی ہاتھ تُو اُلٹے نہ مارنا
سب کچھ یہ مجھ پہ چھوڑو کہ یہ کام ہے مرا
//ہاتھ الئےئ مارنا۔۔ یہ کیا محاورہ ہے؟
اُستاد محترم یہ محاورہ ہے '' ہاتھ اُلٹا مارنا'' فیروز اللغات میں اس کے معنیٰ یوں ہیں '' حسرت اور افسوس ظاہر کرنا''
بُرا آدمی شاعر سے یہی کہ رہا ہے کہ تُجھے کبھی بھی حسرت اور افسوس نہ ہو کسی بات پر، یہ مجھ پر ہی چھوڑو، پھر بھی جیسا آپ حکم دیں
گویا اب صورتحال یوں ہے
بدنام ہو چلا ہوں، مگر نام ہے مرا
شہرت کا قافلہ کوئی دو گام ہے مرا
اس کے بغیر دال گلے گی نہیں تری
رشوت سمجھ رہے ہو جسے، دام ہے مرا
کرتا ہوں دوستی میں فقط خاص خاص سے
دشمن یہ راستے میں پڑا عام ہے مرا
جرات ہی کیا ہے اُسکی، جو بولے مرے خلاف
اُس کے لبوں سے لپٹا ہوا جام ہے مرا
آنکھوں پہ باندھ رکھی ہے پٹی فریب کی
کیسے دکھائی دے وہ جو انجام ہے مرا
اظہر کبھی بھی ہاتھ تُو اُلٹے نہ مارنا
سب کچھ یہ مجھ پہ چھوڑو کہ یہ کام ہے مرا