ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور اصلاح کی غرض سے،'' اُس سے ملنے کی، نہ پھر دید کی حاجت ہی رہی''

اُس سے ملنے کی، نہ پھر دید کی حاجت ہی رہی​
بس گیا دل میں وہ یوں، کوئی ضرورت نی رہی​
شوخیاں بھول گئیں عمر کے ڈھلتے ڈھلتے​
آنکھ میں ناچتی معصوم شرارت نہ رہی​
اس قدر خرچ محافظ کی حفاظت پہ اُٹھا​
بچ گیا وہ تو مگر پھر وہ ریاست نہ رہی​
مژدہ ہجر دیا اُس نے شب وصل تمام​
وصل برپا ہوا، پر اُس میں مسرت نہ رہی​
حسن یہ کیا کہ تُو ملتا ہے تو آخر آخر​
قدرت عشق میں سب ہے پہ بصارت نہ رہی​
محو حیرت ہوں میں جس چیز سے گھن آتی تھی​
وہ ضرورت جو بنی، پھر وہ کراہت نہ رہی​
آئنہ جھوٹ یہ کہتا ہے کہ اظہر وہ نہیں​
عکس میں مجھ سے ذرا سی بھی شباہت نہ رہی​
 

الف عین

لائبریرین
پہلے مطلع دوبارہ دیکھو، اس میں دونوں مصرعوں میں ٹائپو ہے، قافیہ نہیں۔ حاجت نہ رہی کہو گے تو بات الٹ جائے گی
 
پہلے مطلع دوبارہ دیکھو، اس میں دونوں مصرعوں میں ٹائپو ہے، قافیہ نہیں۔ حاجت نہ رہی کہو گے تو بات الٹ جائے گی

اوہو معذرت قبول کیجئے اُستاد محترم، پہلے ردیف ہی رہی رکھی پھر بدل دی تھی، پہلا مصرع یوں ہے

دیکھنے کی بھی نہ، ملنے کی بھی حاجت نہ رہی​
بس گیا دل میں وہ یوں، کوئی ضرورت نہ رہی​
شوخیاں بھول گئیں عمر کے ڈھلتے ڈھلتے​
آنکھ میں ناچتی معصوم شرارت نہ رہی​
اس قدر خرچ محافظ کی حفاظت پہ اُٹھا​
بچ گیا وہ تو مگر، پھر وہ ریاست نہ رہی​
مژدہ ہجر دیا اُس نے شب وصل تمام​
وصل برپا ہوا، پر اُس میں مسرت نہ رہی​
حسن یہ کیا کہ تُو ملتا ہے تو آخر آخر​
قدرت عشق میں سب ہے پہ بصارت نہ رہی​
محو حیرت ہوں میں جس چیز سے گھن آتی تھی​
وہ ضرورت جو بنی، پھر وہ کراہت نہ رہی​
آئنہ جھوٹ یہ کہتا ہے کہ اظہر وہ نہیں​
عکس میں مجھ سے ذرا سی بھی شباہت نہ رہی​
 

الف عین

لائبریرین
مطلع اب بھی چست اور صاف نہیں۔ ذرا سوچو خود ہی۔

شوخیاں بھول گئیں عمر کے ڈھلتے ڈھلتے
یہاں گئے‘ کا محل ہے

بچ گیا وہ تو مگر، پھر وہ ریاست نہ رہی​
۔۔روانی کی کمی ہے۔ یوں کہیں تو​
بچ گیا وہ تو مگراس کی حکومت نہ رہی​
مژدہ ہجر دیا اُس نے شب وصل تمام
وصل برپا ہوا، پر اُس میں مسرت نہ رہی
اچھا خیال ہے، مگر یوں بہتر ہو
مژدہ ہجر دیا شب وصل وہ دیتا ہی رہا
وصل برپا تو ہوا، لطف و مسرت نہ رہی
حسن یہ کیا کہ تُو ملتا ہے تو آخر آخر
قدرت عشق میں سب ہے پہ بصارت نہ رہی
اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔
کراہت والا شعر درست
لیکن
آئنہ جھوٹ یہ کہتا ہے کہ اظہر وہ نہیں
عکس میں مجھ سے ذرا سی بھی شباہت نہ رہی
اس کو یوں کہو تو
آئنہ کہتا ہے۔۔ یہ جھوٹ ہے، اظہر وہ نہیں
عکس میں س کی ذرا سی بھی شباہت نہ رہی
 
مطلع اب بھی چست اور صاف نہیں۔ ذرا سوچو خود ہی۔

شوخیاں بھول گئیں عمر کے ڈھلتے ڈھلتے
یہاں گئے‘ کا محل ہے

بچ گیا وہ تو مگر، پھر وہ ریاست نہ رہی​
۔۔روانی کی کمی ہے۔ یوں کہیں تو​
بچ گیا وہ تو مگراس کی حکومت نہ رہی​
مژدہ ہجر دیا اُس نے شب وصل تمام
وصل برپا ہوا، پر اُس میں مسرت نہ رہی
اچھا خیال ہے، مگر یوں بہتر ہو
مژدہ ہجر دیا شب وصل وہ دیتا ہی رہا
وصل برپا تو ہوا، لطف و مسرت نہ رہی
حسن یہ کیا کہ تُو ملتا ہے تو آخر آخر
قدرت عشق میں سب ہے پہ بصارت نہ رہی
اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔
کراہت والا شعر درست
لیکن
آئنہ جھوٹ یہ کہتا ہے کہ اظہر وہ نہیں
عکس میں مجھ سے ذرا سی بھی شباہت نہ رہی
اس کو یوں کہو تو
آئنہ کہتا ہے۔۔ یہ جھوٹ ہے، اظہر وہ نہیں
عکس میں س کی ذرا سی بھی شباہت نہ رہی

جی مطلع یوں کہوں اگر محترم اُستاد تو

پھر ملاقات کی گویا کوئی حاجت نہ رہی
بس گیا دل میں وہ یوں، کوئی ضرورت نہ رہی
شوخیاں بھول گئے عمر کے ڈھلتے ڈھلتے
آنکھ میں ناچتی معصوم شرارت نہ رہی​
اس قدر خرچ محافظ کی حفاظت پہ اُٹھا​
بچ گیا وہ تو مگراُس کی حکومت نہ رہی
مژدہ ہجر شب وصل وہ دیتا ہی رہا
وصل برپا تو ہوا، لطف و مسرت نہ رہی
محو حیرت ہوں میں جس چیز سے گھن آتی تھی​
وہ ضرورت جو بنی، پھر وہ کراہت نہ رہی​
آئنہ کہتا ہے، یہ جھوٹ ہے، اظہر وہ نہیں
عکس میں اُس کی ذرا سی بھی شباہت نہ رہی
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کو یوں کر دو
پھرملاقات کی جیسے کہ ضرورت نہ رہی
دل میں وہ آن بسا، دید کی حاجت نہ رہی
دوسرا مصرع یوں بھی کہہ سکتے ہو
دل میں یوں آن بسا، دید کی حاجت نہ رہی
 
مطلع کو یوں کر دو
پھرملاقات کی جیسے کہ ضرورت نہ رہی
دل میں وہ آن بسا، دید کی حاجت نہ رہی
دوسرا مصرع یوں بھی کہہ سکتے ہو
دل میں یوں آن بسا، دید کی حاجت نہ رہی

جی بہت بہتر محترم اُستاد

پھر ملاقات کی جیسے کہ ضرورت نہ رہی​
دل میں یوں آن بسا، دید کی حاجت نہ رہی​
شوخیاں بھول گئے عمر کے ڈھلتے ڈھلتے​
آنکھ میں ناچتی معصوم شرارت نہ رہی​
اس قدر خرچ محافظ کی حفاظت پہ اُٹھا​
بچ گیا وہ تو مگراُس کی حکومت نہ رہی​
مژدہ ہجر شب وصل وہ دیتا ہی رہا​
وصل برپا تو ہوا، لطف و مسرت نہ رہی​
محو حیرت ہوں میں جس چیز سے گھن آتی تھی​
وہ ضرورت جو بنی، پھر وہ کراہت نہ رہی​
آئنہ کہتا ہے، یہ جھوٹ ہے، اظہر وہ نہیں​
عکس میں اُس کی ذرا سی بھی شباہت نہ رہی​
 
Top