محمد اظہر نذیر
محفلین
اُس سے ملنے کی، نہ پھر دید کی حاجت ہی رہی
بس گیا دل میں وہ یوں، کوئی ضرورت نی رہی
شوخیاں بھول گئیں عمر کے ڈھلتے ڈھلتے
آنکھ میں ناچتی معصوم شرارت نہ رہی
اس قدر خرچ محافظ کی حفاظت پہ اُٹھا
بچ گیا وہ تو مگر پھر وہ ریاست نہ رہی
مژدہ ہجر دیا اُس نے شب وصل تمام
وصل برپا ہوا، پر اُس میں مسرت نہ رہی
حسن یہ کیا کہ تُو ملتا ہے تو آخر آخر
قدرت عشق میں سب ہے پہ بصارت نہ رہی
محو حیرت ہوں میں جس چیز سے گھن آتی تھی
وہ ضرورت جو بنی، پھر وہ کراہت نہ رہی
آئنہ جھوٹ یہ کہتا ہے کہ اظہر وہ نہیں
عکس میں مجھ سے ذرا سی بھی شباہت نہ رہی