خوب غزل ہے اظہر۔ کچھ معمولی سی اصلاحیں اور کمنٹس دے رہا ہوں۔
بن کے خوشبو کی ہی تمثیل، چلو رقص کریں
اب ہواؤں میں ہوں تحلیل، چلو رقص کریں
÷درست، لیکن یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ خوشبو کا کام کیا محض ہوا میں تحلیل ہو کر رقص کرنا ہی ہوتا ہے!
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا غم ہے
بجھ گئی ایک تھی قندیل، چلو رقص کریں
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا مطلب
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں اس سے کیا
ناروا مال، کہا ں کیسے بنایا تُم نے
کون پوچھے گا یہ تٖفصیل، چلو رقص کریں
تزکرہ ہجر کا غمناک ہے، اب چھوڑ بھی دو
آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں
÷÷پہلے مصرع میں ہجر کی جگہ کچھ اور لفظ ہو تو بہتر ہے۔ 'اب چھوڑو بھی' بہتر ہو گا۔
متقی آج بھی مقبول تری قربانی
دور حاضر کے اے قابیل، چلو رقص کریں
÷÷دور موجودہ کے قابیل کیسا رہے گا! اے قابیل میں ے کا گرنا نا گوار ہے۔
تُو نے شیطان قسم کھائی تھی بہکانے کی
اب لب پایہ تکمیل، چلو رقص کریں
÷÷یہ شعر شتر گربہ کا شکار ہے۔ چلو رقص کریں میں تم سے تخاطب کا پتہ چلتا ہے پھر پہلے مصع میں تو کیوں۔ لب پایہ تکمیل کی ترکیب بھی پسند نہیں آئی۔
حکم حاکم ہے، کہو مرگ مفاجات سہی
کر دے اظہر تُو بھی تعمیل، چلو رقص کریں
÷÷اس میں بھی وہی سقم ہے۔ دوسرا مصرع یوں ہو سکتا ہے