ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کے لئے،'' بن کے خوشبو کی ہی تمثیل، چلو رقص کریں''

بن کے خوشبو کی ہی تمثیل، چلو رقص کریں​
اب ہواؤں میں ہوں تحلیل، چلو رقص کریں​
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا غم ہے​
بجھ گئی ایک تھی قندیل، چلو رقص کریں​
ناروا مال، کہا ں کیسے بنایا تُم نے​
کون پوچھے گا یہ تٖفصیل، چلو رقص کریں​
تزکرہ ہجر کا غمناک ہے، اب چھوڑ بھی دو​
آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں​
متقی آج بھی مقبول تری قربانی​
دور حاضر کے اے قابیل، چلو رقص کریں​
تُو نے شیطان قسم کھائی تھی بہکانے کی​
اب لب پایہ تکمیل، چلو رقص کریں​
حکم حاکم ہے، کہو مرگ مفاجات سہی​
کر دے اظہر تُو بھی تعمیل، چلو رقص کریں​
 

الف عین

لائبریرین
خوب غزل ہے اظہر۔ کچھ معمولی سی اصلاحیں اور کمنٹس دے رہا ہوں۔
بن کے خوشبو کی ہی تمثیل، چلو رقص کریں​
اب ہواؤں میں ہوں تحلیل، چلو رقص کریں​
÷درست، لیکن یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ خوشبو کا کام کیا محض ہوا میں تحلیل ہو کر رقص کرنا ہی ہوتا ہے!​
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا غم ہے​
بجھ گئی ایک تھی قندیل، چلو رقص کریں​
÷÷کچھ بہتری کے لئے
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا مطلب​
یا​
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں اس سے کیا​
ایک تھی، بجھ گئی۔۔۔۔​
ناروا مال، کہا ں کیسے بنایا تُم نے​
کون پوچھے گا یہ تٖفصیل، چلو رقص کریں​
÷÷درست​
تزکرہ ہجر کا غمناک ہے، اب چھوڑ بھی دو​
آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں​
÷÷پہلے مصرع میں ہجر کی جگہ کچھ اور لفظ ہو تو بہتر ہے۔ 'اب چھوڑو بھی' بہتر ہو گا۔​
متقی آج بھی مقبول تری قربانی​
دور حاضر کے اے قابیل، چلو رقص کریں​
÷÷دور موجودہ کے قابیل کیسا رہے گا! اے قابیل میں ے کا گرنا نا گوار ہے۔​
تُو نے شیطان قسم کھائی تھی بہکانے کی​
اب لب پایہ تکمیل، چلو رقص کریں​
÷÷یہ شعر شتر گربہ کا شکار ہے۔ چلو رقص کریں میں تم سے تخاطب کا پتہ چلتا ہے پھر پہلے مصع میں تو کیوں۔ لب پایہ تکمیل کی ترکیب بھی پسند نہیں آئی۔​
حکم حاکم ہے، کہو مرگ مفاجات سہی​
کر دے اظہر تُو بھی تعمیل، چلو رقص کریں​
÷÷اس میں بھی وہی سقم ہے۔ دوسرا مصرع یوں ہو سکتا ہے​
تم بھی اظہر کرو۔۔۔۔​
 
خوب غزل ہے اظہر۔ کچھ معمولی سی اصلاحیں اور کمنٹس دے رہا ہوں۔
بن کے خوشبو کی ہی تمثیل، چلو رقص کریں​

اب ہواؤں میں ہوں تحلیل، چلو رقص کریں​

÷درست، لیکن یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ خوشبو کا کام کیا محض ہوا میں تحلیل ہو کر رقص کرنا ہی ہوتا ہے!​

تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا غم ہے​

بجھ گئی ایک تھی قندیل، چلو رقص کریں​

÷÷کچھ بہتری کے لئے​

تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا مطلب​

یا​

تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں اس سے کیا​

ایک تھی، بجھ گئی۔۔۔ ۔​


ناروا مال، کہا ں کیسے بنایا تُم نے​

کون پوچھے گا یہ تٖفصیل، چلو رقص کریں​

÷÷درست​

تزکرہ ہجر کا غمناک ہے، اب چھوڑ بھی دو​

آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں​

÷÷پہلے مصرع میں ہجر کی جگہ کچھ اور لفظ ہو تو بہتر ہے۔ 'اب چھوڑو بھی' بہتر ہو گا۔​

متقی آج بھی مقبول تری قربانی​

دور حاضر کے اے قابیل، چلو رقص کریں​

÷÷دور موجودہ کے قابیل کیسا رہے گا! اے قابیل میں ے کا گرنا نا گوار ہے۔​

تُو نے شیطان قسم کھائی تھی بہکانے کی​

اب لب پایہ تکمیل، چلو رقص کریں​

÷÷یہ شعر شتر گربہ کا شکار ہے۔ چلو رقص کریں میں تم سے تخاطب کا پتہ چلتا ہے پھر پہلے مصع میں تو کیوں۔ لب پایہ تکمیل کی ترکیب بھی پسند نہیں آئی۔​

حکم حاکم ہے، کہو مرگ مفاجات سہی​

کر دے اظہر تُو بھی تعمیل، چلو رقص کریں​

÷÷اس میں بھی وہی سقم ہے۔ دوسرا مصرع یوں ہو سکتا ہے​

تم بھی اظہر کرو۔۔۔ ۔​
یوں دیکھ لیجیے اُستاد محترم


بن کے خوشبو کی ہی تمثیل، چلو رقص کریں​
یوں ہواؤں میں ہوں تحلیل، چلو رقص کریں
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا مطلب
ایک تھی بجھ گئی قندیل، چلو رقص کریں
ناروا مال، کہا ں کیسے بنایا تُم نے​
کون پوچھے گا یہ تٖفصیل، چلو رقص کریں​
تزکرہ آج ہو کیوں اُس کی جفاؤں کا اگر​
آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں​
متقی آج بھی مقبول تری قربانی​
دور موجودہ کے قابیل، چلو رقص کریں
ورغلانا تھا یہ ابلیس قسم کھائے تھا
ہو گئی عہد کی تکمیل، چلو رقص کریں
حکم حاکم ہے جہاں مرگ مفاجات بھی ہے
تُم بھی اظہر کرو تعمیل، چلو رقص کریں
 

الف عین

لائبریرین
یوں ہواؤں میں ہوں تحلیل، چلو رقص کریں​
پہلے بھی خیال آیا تھا کہ لکھوں کہ یہ ’ہوں‘ بغیر اعراب کے مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔ ہوٗں بھی پڑھا جا سکتا ہے، اور ہُوں بھی۔ اگر اس کا کوئی متبادل نہ سمجھ میں آئے، تو پہلا مصرع یوں کر دیا جائے​
بنیں خوشبو کی ہی تمثیل۔۔۔​
ورنہ پہلی ہی شکل چلنے دو۔ ’اب‘ یا ‘یوں‘ دونوں درست ہیں۔​
اور یہ شعر کوئی خاص نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔​
ورغلانا تھا یہ ابلیس قسم کھائے تھا
ہو گئی عہد کی تکمیل، چلو رقص کریں
 

شوکت پرویز

محفلین
تزکرہ آج ہو کیوں اُس کی جفاؤں کا اگر
آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں​
تذکرہ

ویسے تم نے یہ شعر بدلا ہے تو اصولاً اسے سرخ فانٹ میں ہونا چاہئے تھا تا کہ اسے دوبارہ دیکھا جائے، بلیک فانٹ میں ہونے کی وجہ سے لگتا ہے کہ وہی پرانا ہے، اس لئے شاید دوبارہ اصلاح کی غرض سے اس پر نظر نہ پڑے۔۔۔
ویسے مجھے اس کی موجودہ صورت کے مقابلہ میں پہلی صورت ہی بہتر لگ رہی ہے۔۔
 
یوں ہواؤں میں ہوں تحلیل، چلو رقص کریں​
پہلے بھی خیال آیا تھا کہ لکھوں کہ یہ ’ہوں‘ بغیر اعراب کے مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔ ہوٗں بھی پڑھا جا سکتا ہے، اور ہُوں بھی۔ اگر اس کا کوئی متبادل نہ سمجھ میں آئے، تو پہلا مصرع یوں کر دیا جائے​
بنیں خوشبو کی ہی تمثیل۔۔۔​
ورنہ پہلی ہی شکل چلنے دو۔ ’اب‘ یا ‘یوں‘ دونوں درست ہیں۔​
اور یہ شعر کوئی خاص نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔​
ورغلانا تھا یہ ابلیس قسم کھائے تھا
ہو گئی عہد کی تکمیل، چلو رقص کریں

اُستاد محترم یوں دیکھ لیجیے تو

بن کے خوشبو کی ہی تمثیل، چلو رقص کریں​
اب ہواؤں میں ہوں تحلیل، چلو رقص کریں​
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا مطلب​
ایک تھی بجھ گئی قندیل، چلو رقص کریں​
ناروا مال، کہا ں کیسے بنایا تُم نے​
کون پوچھے گا یہ تفصیل، چلو رقص کریں​
وہ نہیں بھی ہے، شب وصل منا لیتے ہیں
آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں
متقی آج بھی مقبول تری قربانی​
دور موجودہ کے قابیل، چلو رقص کریں​
اک کہاوت کے لئے کیوں یہ چھپائیں کنکر
اب کہاں ہیں وہ ابابیل، چلو رقص کریں
حکم حاکم ہے جہاں مرگ مفاجات بھی ہے​
تُم بھی اظہر کرو تعمیل، چلو رقص کریں​
 
تذکرہ

ویسے تم نے یہ شعر بدلا ہے تو اصولاً اسے سرخ فانٹ میں ہونا چاہئے تھا تا کہ اسے دوبارہ دیکھا جائے، بلیک فانٹ میں ہونے کی وجہ سے لگتا ہے کہ وہی پرانا ہے، اس لئے شاید دوبارہ اصلاح کی غرض سے اس پر نظر نہ پڑے۔۔۔
ویسے مجھے اس کی موجودہ صورت کے مقابلہ میں پہلی صورت ہی بہتر لگ رہی ہے۔۔
جی وہ سہواٰٰ رہ گیا ، تبدیل کیے دیتا ہوں اشعار
 

الف عین

لائبریرین
وہ نہیں بھی ہے، شب وصل منا لیتے ہیں
آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں
اس کو تھوڑا سا تبدیل کر دو تو درست ہو جائے
وہ نہیں تب بھی شب وصل۔۔۔۔
اور
اک کہاوت کے لئے کیوں یہ چھپائیں کنکر
اب کہاں ہیں وہ ابابیل، چلو رقص کریں
یہ شعر کچھ واضح نہیں، اور تذکرہ کہاوت کا نہیں ہے، قرآنی حقیقت کا ہے، مسلمان اسے محض کہاوت نہیں کہہ سکتا!!
 
وہ نہیں بھی ہے، شب وصل منا لیتے ہیں
آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں
اس کو تھوڑا سا تبدیل کر دو تو درست ہو جائے
وہ نہیں تب بھی شب وصل۔۔۔ ۔
اور
اک کہاوت کے لئے کیوں یہ چھپائیں کنکر
اب کہاں ہیں وہ ابابیل، چلو رقص کریں
یہ شعر کچھ واضح نہیں، اور تذکرہ کہاوت کا نہیں ہے، قرآنی حقیقت کا ہے، مسلمان اسے محض کہاوت نہیں کہہ سکتا!!
جی اصل میں سوچ عدوان اسلام کی بیان کی تھی کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں ، ویسے جب لکھا تھا تو یوں لکھا تھا شعر، ایسے دیکھیے کہ درست لگ رہا ہے کہ نہیں


بن کے خوشبو کی ہی تمثیل، چلو رقص کریں​
اب ہواؤں میں ہوں تحلیل، چلو رقص کریں​
تُم اندھیروں کے مسافر ہو تُمہیں کیا مطلب​
ایک تھی بجھ گئی قندیل، چلو رقص کریں​
ناروا مال، کہا ں کیسے بنایا تُم نے​
کون پوچھے گا یہ تفصیل، چلو رقص کریں​
وہ نہیں تب بھی شب وصل منا لیتے ہیں
آج ہجراں کی ہے تعطیل، چلو رقص کریں​
متقی آج بھی مقبول تری قربانی​
دور موجودہ کے قابیل، چلو رقص کریں​
ابرہہ وقت کا یلغار کرے گا پھر سے
آو کعبہ کے ابابیل، چلو رقص کریں
حکم حاکم ہے جہاں مرگ مفاجات بھی ہے​
تُم بھی اظہر کرو تعمیل، چلو رقص کریں​
 
Top