ایک غزل، تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کے لئے،'' بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، پیتے ہیں''

بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، پیتے ہیں​
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، پیتے ہیں​
جو کی تھی دفن محبت وہ کھوجنی ہے مجھے​
کرید تُو بھی تو سینے کا داغ ، پیتے ہیں​
شراب خانہ سجاؤ، مراد بر آئی​
جلاؤ گھی سے خوشی کے چراغ، پیتے ہیں​
کدورتوں کا سبب جاننا ضروری ہے​
لگے گا اُن کا بھی کچھ تو سُراغ، پیتے ہیں​
کیا ہمیں کو ہے پابند کیوں زمانے نے​
گلُ بہار، یہ پودے، یہ باغ ، پیتے ہیں​
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ کیا کریں اظہر​
قبول ان کو کرے گا دماغ ، پیتے ہیں​
 

شوکت پرویز

محفلین
شاید پہلے چار اشعار میں "اے ساقی" ردیف چل جائے :unsure:
اگر یہ ردیف رکھنا ہو تو پہلے شعر میں "بھر دے" اور تیسرے شعر میں "سجا دے" اور "جلا دے" بھی کر دیا جائے :)
 
شاید پہلے چار اشعار میں "اے ساقی" ردیف چل جائے :unsure:
اگر یہ ردیف رکھنا ہو تو پہلے شعر میں "بھر دے" اور تیسرے شعر میں "سجا دے" اور "جلا دے" بھی کر دیا جائے :)

جی یہ بھی میرے مد نظر ہے، اصل میں یہ غزل جس قافئے کے ساتھ شروع کی تھی وہ تھا۔۔۔۔۔ دھیرے سے ۔۔۔۔۔
 
اگر یوں کہا جائے تو​
بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، تھوڑا سا​
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، تھوڑا سا​
جو کی تھی دفن محبت وہ مل تو جائے گی​
کریدنا بھی پڑا دل کا داغ ،تھوڑا سا​
کمی ہے اُس میں کہاں جو مراد بر آئی؟​
بھرا ہے تُم نے جو گھی سے چراغ، تھوڑا سا​
کدورتوں کا سبب جاننا ضروری ہے​
لگے گا اُن کا بھی آخر سُراغ، تھوڑا سا​
نشہ ہے قُرب کا لیکن اثر تو رکھتے ہیں​
گلُ بہار، یہ پودے، یہ باغ ، تھوڑا سا​
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ کیا کریں اظہر​
قبول ان کو کرے گا دماغ ،تھوڑا سا​
 

الف عین

لائبریرین
ہاں تھوڑا سا ردیف بہتر ہے۔ لیکن تذکیر و تانیث کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ’کم کم ہی‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟
 
ہاں تھوڑا سا ردیف بہتر ہے۔ لیکن تذکیر و تانیث کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ’کم کم ہی‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

اُستاد محترم مجھے یہ صورت زیادہ بھلی لگ رہی ہے، آپ کیا فرماتے ہیں


بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، کیا ہو گا​
ملا جو تشنہ لبوں کو فراغ، کیا ہو گا​
جو کی تھی دفن محبت وہ مل تو جائے گی​
کریدنا بھی پڑا دل کا داغ ، کیا ہو گا​
بُرا ہے کیا جو مرادیں نہیں ہوئیں پوری​
جلاؤ گھی سے خوشی کے چراغ، کیا ہو گا​
کدورتوں کا سبب جان لوں کہ رہنے دوں​
لگا جو اُن کا مجھے کچھ سُراغ، کیا ہو گا​
نظر میں تُو جو نہیں ہے تو سوچ میرے لئے​
گلُ بہار، یہ پودے، یہ باغ ، کیا ہو گا​
دکھا رہے ہیں وہ ناز و ادا مجھے اظہر​
اُٹھا بھی لوں جو میں اُن کے دماغ ، کیا ہو گا​
 

الف عین

لائبریرین
کیا ہوگا سے کیا ہو گا؟ محض کیا ہو گا سے تو مطلب بھی واضح نہیں ہوتا۔ ’تو کیا ہوگا‘ ۔ ’اس سے کیا فائدہ ہوگا‘، ااگر اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے تو ‘تھوڑا سا‘ کو ہی قبول کر لو، اس میں تھوڑا سا ہی سقم ہے، زیادہ نہیں
 

شوکت پرویز

محفلین
کیا ہوگا سے کیا ہو گا؟ محض کیا ہو گا سے تو مطلب بھی واضح نہیں ہوتا۔ ’تو کیا ہوگا‘ ۔ ’اس سے کیا فائدہ ہوگا‘، ااگر اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے تو ‘تھوڑا سا‘ کو ہی قبول کر لو، اس میں تھوڑا سا ہی سقم ہے، زیادہ نہیں
انکل !
اے ساقی کیسا رہے گا، شروع کے چار اشعار میں تو شاید ٹھیک لگ رہا ہے۔۔۔۔
اگر یہ ردیف رکھنا ہو تو پہلے شعر میں "بھر دے" اور تیسرے شعر میں "سجا دے" اور "جلا دے" بھی کر دیا جائے :)

اس ردیف کی مناسبت سے آخری دو اشعار میں بھی کچھ تبدیلی کی جا سکتی ہے۔۔
:)
 
کیا ہوگا سے کیا ہو گا؟ محض کیا ہو گا سے تو مطلب بھی واضح نہیں ہوتا۔ ’تو کیا ہوگا‘ ۔ ’اس سے کیا فائدہ ہوگا‘، ااگر اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے تو ‘تھوڑا سا‘ کو ہی قبول کر لو، اس میں تھوڑا سا ہی سقم ہے، زیادہ نہیں

یوں دیکھ لیجئے محترم اُستاد


بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، تھوڑا سا​
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، تھوڑا سا​
جو کی تھی دفن محبت وہ مل تو جائے گی​
کرید لوں گا میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سا​
کمی ہے اس میں کہاں؟ جو مراد بر آئی​
بھرا ہے تُم نے جو گھی کا چراغ، تھوڑا سا​
کدورتوں کا سبب جان لوں ضروری ہے​
لگے سہی کبھی اُن کا سُراغ، تھوڑا سا​
نشہ ہے قرب کا، لیکن اثر تو رکھتے ہیں​
گلُ بہار، یہ پودے، یہ باغ ، تھوڑا سا​
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کر دعا اظہر​
قبول ان کو کرے اب دماغ ، تھوڑا سا​
 

الف عین

لائبریرین
بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، تھوڑا سا​
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، تھوڑا سا​
÷÷درست​
جو کی تھی دفن محبت وہ مل تو جائے گی​
کرید لوں گا میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سا​
۔۔دوسرا مصرع یوں ہو تو بہتر ہے​
کرید لوں جو میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سایا​
یا​
کرید تو لوں میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سا​
کمی ہے اس میں کہاں؟ جو مراد بر آئی​
بھرا ہے تُم نے جو گھی کا چراغ، تھوڑا سا​
پہلے مصرع میں روانی کی کمی ہے۔ دوسرے میں ’گھی سےچراغ‘ کہنا بہتر ہے۔​
کدورتوں کا سبب جان لوں ضروری ہے​
لگے سہی کبھی اُن کا سُراغ، تھوڑا سا​
جان لوں کو ’جاننا‘ کر دیا جائے تو!! دوسرا مصرع​
کبھی لگے تو سہی کچھ سراغ۔۔۔​
نشہ ہے قرب کا، لیکن اثر تو رکھتے ہیں​
گلُ بہار، یہ پودے، یہ باغ ، تھوڑا سا​
یون کہو تو بہتر ہو​
نشہ ہے قرب کا، ورنہ اثر تو رکھتے ہیں
یہ گل، یہ بادِ صبا اور یہ باغ ، تھوڑا سا​
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کر دعا اظہر​
قبول ان کو کرے اب دماغ ، تھوڑا سا​
÷÷دوسرا صرع یون کہو​
قبول ان کو بھی کر لے۔۔​
 
بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، تھوڑا سا​
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، تھوڑا سا​
÷÷درست​
جو کی تھی دفن محبت وہ مل تو جائے گی​
کرید لوں گا میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سا​
۔۔دوسرا مصرع یوں ہو تو بہتر ہے​
کرید لوں جو میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سایا​
یا​
کرید تو لوں میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سا​
کمی ہے اس میں کہاں؟ جو مراد بر آئی​
بھرا ہے تُم نے جو گھی کا چراغ، تھوڑا سا​
پہلے مصرع میں روانی کی کمی ہے۔ دوسرے میں ’گھی سےچراغ‘ کہنا بہتر ہے۔​
کدورتوں کا سبب جان لوں ضروری ہے​
لگے سہی کبھی اُن کا سُراغ، تھوڑا سا​
جان لوں کو ’جاننا‘ کر دیا جائے تو!! دوسرا مصرع​
کبھی لگے تو سہی کچھ سراغ۔۔۔​
نشہ ہے قرب کا، لیکن اثر تو رکھتے ہیں​
گلُ بہار، یہ پودے، یہ باغ ، تھوڑا سا​
یون کہو تو بہتر ہو​
نشہ ہے قرب کا، ورنہ اثر تو رکھتے ہیں​
یہ گل، یہ بادِ صبا اور یہ باغ ، تھوڑا سا​

حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کر دعا اظہر​
قبول ان کو کرے اب دماغ ، تھوڑا سا​
÷÷دوسرا صرع یون کہو​
قبول ان کو بھی کر لے۔۔​

لیجئے محترم اُستاد

بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، تھوڑا سا​
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، تھوڑا سا​
جو کی تھی دفن محبت وہ مل تو جائے گی​
کرید لوں جو میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سا
کمی کہاں پہ ہوئی ہے، مراد بر آئی
بھرا ہے تُم نے جو گھی سے چراغ، تھوڑا سا
کدورتوں کا سبب جاننا ضروری ہے
کبھی لگے تو سہی کچھ سُراغ، تھوڑا سا
نشہ ہے قرب کا، ورنہ اثر تو رکھتے ہیں
یہ گُل یہ باد صبا اور یہ باغ ، تھوڑا سا
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کر دعا اظہر​
قبول ان کو بھی کر لے دماغ ، تھوڑا سا
 

الف عین

لائبریرین
نشہ کا تلفظ اگرچہ غلط ہے، لیکن میں نے قبول کر لیا تھا۔ اگر اعتراض کرنے والوں کو اطمینان دلانا ہی مقصود ہو تو
ہے نشّہ قرب کا۔۔۔۔۔
کر دو
 
نشہ کا تلفظ اگرچہ غلط ہے، لیکن میں نے قبول کر لیا تھا۔ اگر اعتراض کرنے والوں کو اطمینان دلانا ہی مقصود ہو تو
ہے نشّہ قرب کا۔۔۔ ۔۔
کر دو

اور اگر نشہ کی جگہ سرور کر دوں محترم اُستاد تو؟

بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، تھوڑا سا​
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، تھوڑا سا​
جو کی تھی دفن محبت وہ مل تو جائے گی​
کرید لوں جو میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سا​
کمی کہاں پہ ہوئی ہے، مراد بر آئی​
بھرا ہے تُم نے جو گھی سے چراغ، تھوڑا سا​
کدورتوں کا سبب جاننا ضروری ہے​
کبھی لگے تو سہی کچھ سُراغ، تھوڑا سا​
سرور قرب کا، ورنہ اثر تو رکھتے ہیں​
یہ گُل یہ باد صبا اور یہ باغ ، تھوڑا سا​
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کر دعا اظہر​
قبول ان کو بھی کر لے دماغ ، تھوڑا سا​
 

الف عین

لائبریرین
سرور اچھا لفظ ہے، لیکن اس طرح بات مکمل نہیں لگتی۔یوں کر دو
سرور قرب کا ہے، یوں اثر تو رکھتے ہیں
 
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کر دعا اظہر​
قبول ان کو بھی کر لے دماغ ، تھوڑا سا​

محمد اظہر نذیر بھائی، ’ کر دعا‘ کچھ کروڈ لگ رہا ہے اسکی جگہ اگر ’ہے دعا کریں تو؟؟؟؟
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ ، ہے دعا اظہرؔ​
قبول اِن کو بھی کرلے دماغ تھوڑا سا​
 
سرور اچھا لفظ ہے، لیکن اس طرح بات مکمل نہیں لگتی۔یوں کر دو
سرور قرب کا ہے، یوں اثر تو رکھتے ہیں

جی بہت بہتر جناب اُستاد


بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، تھوڑا سا​
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، تھوڑا سا​
جو کی تھی دفن محبت وہ مل تو جائے گی​
کرید لوں جو میں یہ دل کا داغ ، تھوڑا سا​
کمی کہاں پہ ہوئی ہے، مراد بر آئی​
بھرا ہے تُم نے جو گھی سے چراغ، تھوڑا سا​
کدورتوں کا سبب جاننا ضروری ہے​
کبھی لگے تو سہی کچھ سُراغ، تھوڑا سا​
سرور قرب کا ہے، یوں اثر تو رکھتے ہیں
یہ گُل یہ باد صبا اور یہ باغ ، تھوڑا سا​
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، ہے دعا اظہر
قبول ان کو بھی کر لے دماغ ، تھوڑا سا​
 
Top