محمد اظہر نذیر
محفلین
بھلائی جان کے بھر دو ایاغ، پیتے ہیں
ملے گا تشنہ لبوں کو فراغ، پیتے ہیں
جو کی تھی دفن محبت وہ کھوجنی ہے مجھے
کرید تُو بھی تو سینے کا داغ ، پیتے ہیں
شراب خانہ سجاؤ، مراد بر آئی
جلاؤ گھی سے خوشی کے چراغ، پیتے ہیں
کدورتوں کا سبب جاننا ضروری ہے
لگے گا اُن کا بھی کچھ تو سُراغ، پیتے ہیں
کیا ہمیں کو ہے پابند کیوں زمانے نے
گلُ بہار، یہ پودے، یہ باغ ، پیتے ہیں
حقیقتیں ہیں بڑی تلخ کیا کریں اظہر
قبول ان کو کرے گا دماغ ، پیتے ہیں