محمد اظہر نذیر
محفلین
اک ستارہ سا ہے، اب تاب میں آ جاتی ہے
گاہے گاہے مری ماں خواب میں آ جاتی ہے
آنکھ کھولوں تو وہ کھو جاتی ہے لہروں میں کہیں
آنکھ پتھر ہے مری، آب میں آ جاتی ہے
اُس کا کردار ہی کچھ ایسا ہے تخلیق کیا
ہر کہانی میں ہر اک باب میں آ جاتی ہے
امتحاں یوں ہی نہیں لیتا وہ مجھ سے اکثر
اور کشتی مری گرداب میں آ جاتی ہے
سنگ بختوں کے لگاتار گرے جاتے ہیں
خوش نصیبی ہے کے تالاب میں آ جاتی ہے
چھیڑ پاتا ہی نہیں گیت میں الفت کے کبھی
اک اُداسی ہے جو مضراب میں آ جاتی ہے
تُجھ کو حاصل یہ اگر ہو گی، تو بڑھ کر اظہر
تُو نہیں جن کی خوشی قاب میں آ جاتی ہے
گاہے گاہے مری ماں خواب میں آ جاتی ہے
آنکھ کھولوں تو وہ کھو جاتی ہے لہروں میں کہیں
آنکھ پتھر ہے مری، آب میں آ جاتی ہے
اُس کا کردار ہی کچھ ایسا ہے تخلیق کیا
ہر کہانی میں ہر اک باب میں آ جاتی ہے
امتحاں یوں ہی نہیں لیتا وہ مجھ سے اکثر
اور کشتی مری گرداب میں آ جاتی ہے
سنگ بختوں کے لگاتار گرے جاتے ہیں
خوش نصیبی ہے کے تالاب میں آ جاتی ہے
چھیڑ پاتا ہی نہیں گیت میں الفت کے کبھی
اک اُداسی ہے جو مضراب میں آ جاتی ہے
تُجھ کو حاصل یہ اگر ہو گی، تو بڑھ کر اظہر
تُو نہیں جن کی خوشی قاب میں آ جاتی ہے