اچھی غزل ہے خیالات کے اعتبار سے۔ لیکن پہلے تو یہ کہوں کہ ’رو بھی‘ اور ‘کھو بھی‘ روؤ بھی اور کھوؤ بھی کے معانی میں غلط ہیں۔
بادل کی طرح چھائے، پر چھاو تو برسو بھی
بھیگا ہو بدن میرا، اوروں کو خبر ہو بھی
÷÷÷ پہلا مصرع اس طرح رواں ہو سکتا ہے
بادل کی طرح چھائے، جب چھائے ہو، برسو بھی
البتہ دوسرے مصرع میں بھیگا بدن اور اوروں کو خبر میں ربط نہیں بن رہا ہے۔
پابند نہیں ہوں گے، ارمان جو مچلے ہیں
یہ کیا کہ قریب اتنے، جب آو تو ترسو بھی
۔۔پہلے مصرع میں پابند کا استعمال؟ مچلنے پر روک تھام ممکن ہے۔ یوں کہیں تو
ارمان جو مچلے ہیں اب تھم نہیں پائیں گے
یا
اب ضبط نہیں ہو گا ارمانوں پہ، کیا کیجے
یہ کیا کہ قریب اتنےآئے ہو تو ترسو بھی
دوسرے مصرع میں باریک سی تبدیلی کی ہے۔ ’جب آؤ‘ کی بہ نسبت یوں زیادہ بہتر اظہار ہے
برسوں سے نہیں دیکھا، آنکھوں میں نمی آتے
پتھر کی نہ ہو جائیں، اک بار ذرا رو بھی
۔۔رو بھی کا شروع میں ہی کہہ چکا ہوں
قربان کرو جاں کو، تُم کہہ کہ نہیں آتے
ہے جان ہتھیلی پر، تُم آو مگر لو بھی
÷÷ یہ شعر ہی سمجھ میں نہیں آ سکا۔ لو بھی؟
مرنا بھی مصیبت ہے، جینے بھی نہیں دیتے
حاصل ہے جو کچھ ہوتا، کہتے ہیں کہ کچھ کھو بھی
÷÷یہ بھی قافئے کی غلطی کی وجہ سے درست نہیں کر رہا۔
کیسا بھی ہو اب قاتل، ہتھیار بھی جیسا ہو
مرنا ہے مجھے اظہر، ہو جائے ہے اب جو بھی
÷÷؛پہلا مصرع اس طرح بہتر ہے
ہتھیار ہوں جیسے بھی، کیسا ہی ہو قاتل بھی
یا
ہتھیار ہو جیسا بھی، کیسا ہی ہو قاتل بھی
دوسرے مصرع میں ‘ہو جائے ہے‘ کھٹک رہا ہے۔ نثر میں تو کہا جاتا ہے کہ ’جو بھی ہے، اب ہو جائے‘ لیکن اس کی نظم میں بھی ’ہے‘ اور ’اب‘ کی نشست بدلنی پڑتی ہے۔’ہو جائے اب‘ تو کہا جا سکتا ہے، کچھ متبادل سوچو۔