لو اس بیچ میں تن نے ایک ورژن اور پوسٹ کر دیا اس غزل کا، کل ہی میں نے اصلاح کر دی ہے، اور اب پوسٹ کر رہا ہوں، تم ہی دیکھ لو کہ اس میں کی ہوئی تبدیلیاں پسند ہیں یا تمہاری خود کی۔
وہ بھی کیا لوگ ہوا کرتے تھے مے خانوں میں
مے بھی رقصاں سی رہا کرتی تھی پیمانوں میں
// اب ایسا نہیں ہوتا تو کیوں نہیں ہوتا؟ تکنیکی اعتبار سے صرف یہ غلطی ہے کہ ’سی‘ بھرتی کا ہے۔ اس کو یوں کہہ سکتے ہو
رقص میں مے بھی رہا کرتی۔۔۔۔۔۔۔
درد غیروں کا بھی محسوس ہوا کرتا تھا
خوف باقی تھا خدا کا ابھی انسانوں میں
//درست
کھولنا بھول گیا ہے یہ ستم کیسا ہو
خون تو اب بھی رواں ہے وہی شریانوں میں
//شعر اچھا ہے لیکن اس صورت میں مفہوم سے عاری۔ یوں ہو تو صاف ہو جاتا ہے
کھولنا بھول گیا ہے، یہ ستم کیسے ہوا؟
جلوتیں دے نہ سکیں درد سوا کچھ بھی مجھے
اس سے بہتر ہے بسوں جا کے میں ویرانوں میں
// جلوتیں کیا نہ دے سکیں، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا یہ مطلب ہے؟
درد و غم چھوڑ کے جب جلوتیں کچھ دے نہ سکیں
یا
ماسوا درد کے جب جلوتیں۔۔۔۔۔
اپنی آنکھوں میں محبت جو لئے پھرتا ہوں
اک شناسا تو ملے گا کبھی انجانوں میں
//درست
پابجولاں وہ مجھے پیش کریں گے ظالم
سامنے جبر کے، لکھا ہے یہ فرمانوں میں
// پہلا مصرع یوں ہو تو زیادہ بہتر ہے
پا بہ زنجیر مجھے پیش کیا جائے گا
قید اظہر کو کریں ، دل میں ہی رکھیے خواہش
دم نہیں باقی رہا آپ کے زندانوں میں
// زندانوں میں دم؟؟ بات سمجھ میں نہیں آئی۔