بہت شکریہ اُستاد محترم
ایک سوال ایک محترم نے کیا ہے وہ یہ کہ''قوافی کہیں، نہیں ، وہیں، یہیں، کے ساتھ زمیں، قریں اور یقیں وغیرہ نہیں آ سکتا،'' کیا یہ صحیح ہے؟
درست کہا جن نے بھی کہا کیوں آپ نے مطلع میں قوافی ہی ایسے استمعال کیے ہیں۔ آپ مطلع کے قوافی بدل دیں تو پھر ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ابھی مطلع کے قوافی نہیں اور کہیں کا مطلب ہے کہ آپ نے ہ کی بھی قافیے میں شرط لگا لی ہے اور اسطرح قافیہ آ ہیں بنتا ہے یعنی الف یا زبر کی آواز او ر اسکے بعد "ہِیں"، اسکے ساتھ یعنی ہ کی قید کے ساتھ صرف یہیں، وہیں آسکتے ہیں۔
اگر مطلع کا قافیہ بدل کر ہ کی قید اڑا دیں تو پھر قافیہ صرف ایں رہ جائے گا اور پھر اس میں زمیں، قریں، یقیں، مکیں، حسیں، مبیں بھی آسکتے ہیں، ایک مثال دیکھیے احمد مشتاق کی خوبصورت غزل
مل ہی جائے گا کبھی، دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول، کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اِک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جُگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں، کون حسیں رہتا ہے