ایک غزل، '' پیار دیکھا تیری نظروں میں مگر پوچھا نہیں '' اصلاح اور رہنمائی کے لئے پیش

پیار دیکھا تیری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ کہیں خواب اگر پوچھا نہیں

چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، تیرا رستہ یا نگر پوچھا نہیں

تو تھکا ماندہ سا آیا تھا وہاں محفل میں
کیسا گذرا، میری جاناں تھا سفر؟ پوچھا نہیں

چاند پیکر کوتکے جاتے رہے سب حاظر
چودھویں کا ہے، بلا کا یہ قمر؟، پوچھا نہیں

ہم بھی گم سُم تھے ، وہاں لوگ بھی بہکے بہکے
ہر کسی پر تھا اثر؟، کیسا اثر؟ پوچھا نہیں

کیسے وہ قتل کرے گا میرا قاتل مجھ کو
قتل ہونا تھا مجھے اُس کا ہنر پوچھا نہیں

کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
اُن پے کس نے تھا کیا ایسا، سحر پوچھا نہیں
 

الف عین

لائبریرین
کوئی اور یہاں کچھ نہیں کہہ رہا ہے، آسی صاحب بھی نہیں آئے، وارث، فاتح، فرخ، یار مجھے اکیلے اتنی محنت مت کرواؤ!!

پیار دیکھا تیری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ کہیں خواب اگر پوچھا نہیں
۔۔۔۔پہلے مصرع میں ’تری‘ وزن میں آتا ہے، معنی کے حساب سے سوال باقی رہتا ہے، مختصر یہ کہ سمجھ میں نہیں آیا۔

چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، تیرا رستہ یا نگر پوچھا نہیں
۔۔۔۔ اچھا شعر ہے، لیکن صرف و نحو میں سوال اٹھ سکتے ہیں۔ صرف رستہ پوچھا جاتا ہے، بستہی یا نگر نہیں۔ پہلا مصرع بھی یہ غلط تاثر دیتا ہے کہ تمہاری محبوب سے ملاقات ہو چکی ہے جس سے سرشار ہو، لیکن (شاید) یہ کہنا چاہتے تھے کہ ملاقات کی توقع نے سرشار کر رکھا ہے۔

تو تھکا ماندہ سا آیا تھا وہاں محفل میں
کیسا گذرا، میری جاناں تھا سفر؟ پوچھا نہیں
۔۔۔ دوسرے مصرع میں الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے، (ویسے یہاں بھی ’مری‘ کا محل ہے)، موجودہ صورت میں نشست درست نہیں، یوں ہو سکتا ہے
کیسا گزرا میری جاناں کا سفر۔ پوچھا نہیں

چاند پیکر کوتکے جاتے رہے سب حاظر
چودھویں کا ہے، بلا کا یہ قمر؟، پوچھا نہیں
۔۔۔ ’سب حاضر‘ (اگر یہی لفظ ہے تو) بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ کچھ الفاظ بدل کر دیکھو، اس کے علاوہ ’بلا کا‘ بھی اچھا نہیں لگ رہا یہ لفظ عام طور پر منفی معنی دیتا ہے۔

ہم بھی گم سُم تھے ، وہاں لوگ بھی بہکے بہکے
ہر کسی پر تھا اثر؟، کیسا اثر؟ پوچھا نہیں
۔۔۔ درست، اگرچہ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اثر تھا، کیوں تھا؟

کیسے وہ قتل کرے گا میرا قاتل مجھ کو
قتل ہونا تھا مجھے اُس کا ہنر پوچھا نہیں
۔۔ پہلے مصرع میں پھر ’مرا‘ وزن میں آتا ہے۔ شعر درست ہے۔

کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
اُن پے کس نے تھا کیا ایسا، سحر پوچھا نہیں
یہاں قافیہ بنیادی طور پر غلط ہے، اس لئے اس پر کچھ نہیں کہہ رہا ، اس تلفظ میں سحر بمعنی صبح ہوتا ہے، یہاں جادو کے معنی میں ح ساکن ہونا چاہئے تھا۔
 
کوئی اور یہاں کچھ نہیں کہہ رہا ہے، آسی صاحب بھی نہیں آئے، وارث، فاتح، فرخ، یار مجھے اکیلے اتنی محنت مت کرواؤ!!

پیار دیکھا تیری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ کہیں خواب اگر پوچھا نہیں
۔۔۔۔پہلے مصرع میں ’تری‘ وزن میں آتا ہے، معنی کے حساب سے سوال باقی رہتا ہے، مختصر یہ کہ سمجھ میں نہیں آیا۔

چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، تیرا رستہ یا نگر پوچھا نہیں
۔۔۔۔ اچھا شعر ہے، لیکن صرف و نحو میں سوال اٹھ سکتے ہیں۔ صرف رستہ پوچھا جاتا ہے، بستہی یا نگر نہیں۔ پہلا مصرع بھی یہ غلط تاثر دیتا ہے کہ تمہاری محبوب سے ملاقات ہو چکی ہے جس سے سرشار ہو، لیکن (شاید) یہ کہنا چاہتے تھے کہ ملاقات کی توقع نے سرشار کر رکھا ہے۔

تو تھکا ماندہ سا آیا تھا وہاں محفل میں
کیسا گذرا، میری جاناں تھا سفر؟ پوچھا نہیں
۔۔۔ دوسرے مصرع میں الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے، (ویسے یہاں بھی ’مری‘ کا محل ہے)، موجودہ صورت میں نشست درست نہیں، یوں ہو سکتا ہے
کیسا گزرا میری جاناں کا سفر۔ پوچھا نہیں

چاند پیکر کوتکے جاتے رہے سب حاظر
چودھویں کا ہے، بلا کا یہ قمر؟، پوچھا نہیں
۔۔۔ ’سب حاضر‘ (اگر یہی لفظ ہے تو) بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ کچھ الفاظ بدل کر دیکھو، اس کے علاوہ ’بلا کا‘ بھی اچھا نہیں لگ رہا یہ لفظ عام طور پر منفی معنی دیتا ہے۔

ہم بھی گم سُم تھے ، وہاں لوگ بھی بہکے بہکے
ہر کسی پر تھا اثر؟، کیسا اثر؟ پوچھا نہیں
۔۔۔ درست، اگرچہ یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا اثر تھا، کیوں تھا؟

کیسے وہ قتل کرے گا میرا قاتل مجھ کو
قتل ہونا تھا مجھے اُس کا ہنر پوچھا نہیں
۔۔ پہلے مصرع میں پھر ’مرا‘ وزن میں آتا ہے۔ شعر درست ہے۔

کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
اُن پے کس نے تھا کیا ایسا، سحر پوچھا نہیں
یہاں قافیہ بنیادی طور پر غلط ہے، اس لئے اس پر کچھ نہیں کہہ رہا ، اس تلفظ میں سحر بمعنی صبح ہوتا ہے، یہاں جادو کے معنی میں ح ساکن ہونا چاہئے تھا۔


اُستاد محترم،
شائد میری خوش قسمتی کی ہر بار زحمت آپ کے حصہ میں آ جاتی ہے، میں صرف دعا دے سکتا ہوں
جو تبدیلیاں آپ نے تجویز کیں ، کوشش کی ہے کہ پورا اُتر سکوں، فرصت میں اپنی رائے سے نوازیے گا
جزاک اللہ خیر و العافیہ



پیار دیکھا تری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ مرا خواب اگر پوچھا نہیں

چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، تیرا رستہ یا نگر پوچھا نہیں

تو تھکا ماندہ سا آیا تھا وہاں محفل میں
کیسا گذرا، مری جاناں کا سفر؟ پوچھا نہیں

چاند پیکر تو نظر میں تھا ہماری لیکن
چودھویں کا ہے، غضب کا یہ قمر؟، پوچھا نہیں

کیسے وہ قتل کرے گا مرا قاتل مجھ کو
قتل ہونا تھا مجھے اُس کا ہنر پوچھا نہیں

ہم بھی گم سُم تھے ، وہاں لوگ بھی بہکے بہکے
ہر کسی پر تھا اثر، کیسا اثر؟ پوچھا نہیں

کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
ایسے مدہوش، بجا کب ہے گجر پوچھا نہیں​
 

الف عین

لائبریرین
کچھ سوالات اب بھی باقی رہتے ہیں جن کی پچھلے مراسلے میں تفصیل دی تھی۔ پہلے دونوں اشعار میں وہی سوال باقی ہیں تیسرے شعر میں سوالیہ نشان کیوں؟ چوتھے شعر میں بھی سوالیہ نشان؟؟؟ کیا نہیں پوچھا؟ ’کیا قمر چودھویں تاریخ کا ہے؟‘ یا ’کیا یہ غضب کا قمر ہے؟"۔چھٹے شعر میں پرانے سوال باقی ہیں۔ مقطع میں قافیہ تبدیل کر دیا ہے، لیکن یہاں ’پوچھا‘ کی جگہ ’پتہ نہیں‘ کا مفہوم ہے۔ کہنا یہی چاہتے ہو نا کہ کسی نے پوچھا ہی نہیں وہاں کہ کیسے ہو، کیونکہ سب مدہوش تھے۔ تو اس صورت میں گجر بجنے کی بات کون پوچھ رہا ہے یا پوچھ سکتا ہے، اور کس سے؟
مجموعی طور پر اس غزل میں بہت سدھار آیا ہے، ماشاء اللہ۔ مبارک ہو۔
 
محترم اُستاد،
آخری جملے نے میرا خون سیروں بڑھا دیا، بڑی نوازش
میں کوشش کرتا ہوں کے وضاحت کر سکوں اشعار کی، پھر جیسا آپ فرمائیں گے

پیار دیکھا تیری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ مرا خواب اگر پوچھا نہیں
۔۔۔۔پہلے مصرع میں ’تری‘ وزن میں آتا ہے، معنی کے حساب سے سوال باقی رہتا ہے، مختصر یہ کہ سمجھ میں نہیں آیا۔

گویا پیار اُس کی آنکھوں میں تھا لیکن رعب حسن نے پوچھنے نہ دیا کیونکہ خوف تھا کہ خواب ٹوٹ نہ جائے۔ ایسا کہ کیفیت حیرت اور بے حد خوشی کی تھی کی اُس کی نظروں میں پیار تھا لیکن وہاں اپنی کم مائگی پہ ڈر بھی تھا

چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، تیرا رستہ یا نگر پوچھا نہیں
۔۔۔۔ اچھا شعر ہے، لیکن صرف و نحو میں سوال اٹھ سکتے ہیں۔ صرف رستہ پوچھا جاتا ہے، بستہی یا نگر نہیں۔ پہلا مصرع بھی یہ غلط تاثر دیتا ہے کہ تمہاری محبوب سے ملاقات ہو چکی ہے جس سے سرشار ہو، لیکن (شاید) یہ کہنا چاہتے تھے کہ ملاقات کی توقع نے سرشار کر رکھا ہے۔

بلکل درست فرمایا آپ نے کے ملاقات کی توقع نے سرشار کر رکھا تھا جس کی وضاحت مصرع الثانیہ میں بھی ہوتی ہے کے اُس کے گھر کا پتا بھی پوچھنا یاد نہیں رہا، صرف اذن باریابی ملا اور چل پڑے

چوتھے شعر میں بھی سوالیہ نشان؟؟؟ کیا نہیں پوچھا؟ ’کیا قمر چودھویں تاریخ کا ہے؟‘ یا ’کیا یہ غضب کا قمر ہے؟

بلکل درست تجزیہ آپ کا جناب، کے چاند دیکھتے ہوئے ویسے بھی یہ ہوش کسے کے پوچھے، چاند عام دنوں کا ہے کے چودھویں کا ہے

شعر میں پرانے سوال باقی ہیں۔ مقطع میں قافیہ تبدیل کر دیا ہے، لیکن یہاں ’پوچھا‘ کی جگہ ’پتہ نہیں‘ کا مفہوم ہے۔ کہنا یہی چاہتے ہو نا کہ کسی نے پوچھا ہی نہیں وہاں کہ کیسے ہو، کیونکہ سب مدہوش تھے۔ تو اس صورت میں گجر بجنے کی بات کون پوچھ رہا ہے یا پوچھ سکتا ہے، اور کس سے؟

جی مجھے بھی کچھ کمی سی لگی، تبدیل کئے دیتا ہوں
کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
ایسے مدہوش، کہ کیسا ہے حضر، پوچھا نہیں

اُستاد محترم،
مین ایک بار پھر آپ کی عنایتوں اور نوازشات کا شکر ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ کی محنت سے آج اردو لکھ اور بول بھی سکتا ہوں، یقین مانئے یہ کسی گونگے کے بولنے سے کم نہیں۔
میری تمنا ہے کہ آپ فرصت میں یہ بے فیض مگر نیک کام کرتے رہیے، ہم دعا کر سکتے ہیں سو کریں گے آپ کے لئے
دعا گو
اظہر

پیار دیکھا تری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ مرا خواب اگر پوچھا نہیں

چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، ترا رستہ یا نگر پوچھا نہیں

تو تھکا ماندہ سا آیا تھا وہاں محفل میں
کیسا گذرا، مری جاناں کا سفر؟ پوچھا نہیں

چاند پیکر تو نظر میں تھا ہماری لیکن
چودھویں کا ہے، غضب کا یہ قمر؟، پوچھا نہیں

کیسے وہ قتل کرے گا مرا قاتل مجھ کو
قتل ہونا تھا مجھے اُس کا ہنر پوچھا نہیں

ہم بھی گم سُم تھے ، وہاں لوگ بھی بہکے بہکے
ہر کسی پر تھا اثر، کیسا اثر؟ پوچھا نہیں

کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
ایسے مدہوش، کہ کیسا ہے حضر، پوچھا نہیں
 

الف عین

لائبریرین
یار دیکھا تیری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ مرا خواب اگر پوچھا نہیں
یہ شعر وہ مفہوم نہیں دیتا جو تم نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ مزید یہ کہ اس کے قوافی بھی غلط ہیں، کیونکہ شعر سمجھ میں نہیں آیا تھا، اس لئے میں نے دھیان بھی نہیں دیا تھا۔ "اگر‘ اور ’مگر‘ میں ایطا کا عیب ہے، کیونکہ ون دونوں الفاظ میں "گر‘ مشترک ہے، اس طرح قوافی میں ڈگر، نگر قوافی تو ہو سکتے ہیں، کدھر، سفر نہیں ہو سکتے۔ مطلع دوسرا ہی کہو تو بہتر ہے۔
چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، تیرا رستہ یا نگر پوچھا نہیں
چلو مان لیتے ہیں کیونکہ شعر اچھا ہے، اگرچہ وہ دونوں نکات ابھی بھی جواب طلب ہیں، ملاقات کی سرشاری سے ملاقات ہو چکنے کا تاثر، اور بستی یا نگر کا پوچھنا۔
چاند پیکر تو نظر میں تھا ہماری لیکن
چودھویں کا ہے، غضب کا یہ قمر؟، پوچھا نہیں
دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے، کہ مطلب اب بھی واضح نہیں۔ ’چاند پیکر‘ پر اعتراض نہیں کر رہا ہوں، اگرچہ اس طرح فارسی ہندی کا مرکب مستحسن نہیں۔
کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
ایسے مدہوش، کہ کیسا ہے حضر، پوچھا نہیں
اب بھی واضح نہیں۔ حضر سے مراد وطن لی جائے تب بھی۔
 
یار دیکھا تیری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ مرا خواب اگر پوچھا نہیں
یہ شعر وہ مفہوم نہیں دیتا جو تم نے بتانے کی کوشش کی ہے۔ مزید یہ کہ اس کے قوافی بھی غلط ہیں، کیونکہ شعر سمجھ میں نہیں آیا تھا، اس لئے میں نے دھیان بھی نہیں دیا تھا۔ "اگر‘ اور ’مگر‘ میں ایطا کا عیب ہے، کیونکہ ون دونوں الفاظ میں "گر‘ مشترک ہے، اس طرح قوافی میں ڈگر، نگر قوافی تو ہو سکتے ہیں، کدھر، سفر نہیں ہو سکتے۔ مطلع دوسرا ہی کہو تو بہتر ہے۔
چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، تیرا رستہ یا نگر پوچھا نہیں
چلو مان لیتے ہیں کیونکہ شعر اچھا ہے، اگرچہ وہ دونوں نکات ابھی بھی جواب طلب ہیں، ملاقات کی سرشاری سے ملاقات ہو چکنے کا تاثر، اور بستی یا نگر کا پوچھنا۔
چاند پیکر تو نظر میں تھا ہماری لیکن
چودھویں کا ہے، غضب کا یہ قمر؟، پوچھا نہیں
دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے، کہ مطلب اب بھی واضح نہیں۔ ’چاند پیکر‘ پر اعتراض نہیں کر رہا ہوں، اگرچہ اس طرح فارسی ہندی کا مرکب مستحسن نہیں۔
کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
ایسے مدہوش، کہ کیسا ہے حضر، پوچھا نہیں
اب بھی واضح نہیں۔ حضر سے مراد وطن لی جائے تب بھی۔


پیار دیکھا تری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
دل سے نکلی تو صدائیں تھیں، اثر پوچھا نہیں

چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، ترا رستہ یا نگر پوچھا نہیں

تو تھکا ماندہ سا آیا تھا وہاں محفل میں
کیسا گذرا، مری جاناں کا سفر؟ پوچھا نہیں

چاند پیکر تو نظر میں تھا ہماری لیکن
کس کی قسمت کا یہ چمکا ہے بدر، پوچھا نہیں

کیسے وہ قتل کرے گا مرا قاتل مجھ کو
قتل ہونا تھا مجھے اُس کا ہنر پوچھا نہیں

ہم بھی گم سُم تھے ، وہاں لوگ بھی بہکے بہکے
ہر کسی پر تھا اثر، کیسا اثر؟ پوچھا نہیں

کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
ایسے مدہوش، کہ کیسا ہے حضر، پوچھا نہیں
اُستاد محترم،
مطلوبہ تبدیلیاں کیں ہیں ، ذرا ملاحظہ کیجیے، مقطع مین حضر بمعنٰی قیام ، پڑاؤ یا اقامت کے لیا ہے
دعا گو
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
ہاں اب بہتر ہے، لیکن وہ قمر والا شعر، جس میں اب بَدَر قافیہ کر دیا گیا ہے، یہ تلفظ غلط ہے، درست بدر بر وزن فعل، دال ساکن، ہے۔ اس سے تو وہ ’غضب کا قمر‘ ہی ٹھیک تھا۔ اگرچہ "پوچھا نہیں‘ ردیف پر کچھ اشعار میں میرے اعتراضات اب بھی باقی ہیں۔ لیکن قبول کی جا سکتی ہے یہ غزل۔
آسی بھائی، وارث وغیرہ نے کوئی رائے نہیں دی؟؟
 
پیار دیکھا تری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
دل سے نکلی تو صدائیں تھیں، اثر پوچھا نہیں

چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، ترا رستہ یا نگر پوچھا نہیں

تو تھکا ماندہ سا آیا تھا وہاں محفل میں
کیسا گذرا، مری جاناں کا سفر؟ پوچھا نہیں

چاند پیکر تو نظر میں تھا ہماری لیکن
کس کی قسمت کا یہ چمکا ہے قمر، پوچھا نہیں

کیسے وہ قتل کرے گا مرا قاتل مجھ کو
قتل ہونا تھا مجھے اُس کا ہنر پوچھا نہیں

ہم بھی گم سُم تھے ، وہاں لوگ بھی بہکے بہکے
ہر کسی پر تھا اثر، کیسا اثر؟ پوچھا نہیں

کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
ایسے مدہوش، کہ کیسا ہے حضر، پوچھا نہیں
 
Top