محترم اُستاد،
آخری جملے نے میرا خون سیروں بڑھا دیا، بڑی نوازش
میں کوشش کرتا ہوں کے وضاحت کر سکوں اشعار کی، پھر جیسا آپ فرمائیں گے
پیار دیکھا تیری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ مرا خواب اگر پوچھا نہیں
۔۔۔۔پہلے مصرع میں ’تری‘ وزن میں آتا ہے، معنی کے حساب سے سوال باقی رہتا ہے، مختصر یہ کہ سمجھ میں نہیں آیا۔
گویا پیار اُس کی آنکھوں میں تھا لیکن رعب حسن نے پوچھنے نہ دیا کیونکہ خوف تھا کہ خواب ٹوٹ نہ جائے۔ ایسا کہ کیفیت حیرت اور بے حد خوشی کی تھی کی اُس کی نظروں میں پیار تھا لیکن وہاں اپنی کم مائگی پہ ڈر بھی تھا
چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، تیرا رستہ یا نگر پوچھا نہیں
۔۔۔۔ اچھا شعر ہے، لیکن صرف و نحو میں سوال اٹھ سکتے ہیں۔ صرف رستہ پوچھا جاتا ہے، بستہی یا نگر نہیں۔ پہلا مصرع بھی یہ غلط تاثر دیتا ہے کہ تمہاری محبوب سے ملاقات ہو چکی ہے جس سے سرشار ہو، لیکن (شاید) یہ کہنا چاہتے تھے کہ ملاقات کی توقع نے سرشار کر رکھا ہے۔
بلکل درست فرمایا آپ نے کے ملاقات کی توقع نے سرشار کر رکھا تھا جس کی وضاحت مصرع الثانیہ میں بھی ہوتی ہے کے اُس کے گھر کا پتا بھی پوچھنا یاد نہیں رہا، صرف اذن باریابی ملا اور چل پڑے
چوتھے شعر میں بھی سوالیہ نشان؟؟؟ کیا نہیں پوچھا؟ ’کیا قمر چودھویں تاریخ کا ہے؟‘ یا ’کیا یہ غضب کا قمر ہے؟
بلکل درست تجزیہ آپ کا جناب، کے چاند دیکھتے ہوئے ویسے بھی یہ ہوش کسے کے پوچھے، چاند عام دنوں کا ہے کے چودھویں کا ہے
شعر میں پرانے سوال باقی ہیں۔ مقطع میں قافیہ تبدیل کر دیا ہے، لیکن یہاں ’پوچھا‘ کی جگہ ’پتہ نہیں‘ کا مفہوم ہے۔ کہنا یہی چاہتے ہو نا کہ کسی نے پوچھا ہی نہیں وہاں کہ کیسے ہو، کیونکہ سب مدہوش تھے۔ تو اس صورت میں گجر بجنے کی بات کون پوچھ رہا ہے یا پوچھ سکتا ہے، اور کس سے؟
جی مجھے بھی کچھ کمی سی لگی، تبدیل کئے دیتا ہوں
کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
ایسے مدہوش، کہ کیسا ہے حضر، پوچھا نہیں
اُستاد محترم،
مین ایک بار پھر آپ کی عنایتوں اور نوازشات کا شکر ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ کی محنت سے آج اردو لکھ اور بول بھی سکتا ہوں، یقین مانئے یہ کسی گونگے کے بولنے سے کم نہیں۔
میری تمنا ہے کہ آپ فرصت میں یہ بے فیض مگر نیک کام کرتے رہیے، ہم دعا کر سکتے ہیں سو کریں گے آپ کے لئے
دعا گو
اظہر
پیار دیکھا تری نظروں میں مگر پوچھا نہیں
مسترد ہو نہ مرا خواب اگر پوچھا نہیں
چل پڑا میں کہ ملاقات کی سرشاری تھی
تیری بستی، ترا رستہ یا نگر پوچھا نہیں
تو تھکا ماندہ سا آیا تھا وہاں محفل میں
کیسا گذرا، مری جاناں کا سفر؟ پوچھا نہیں
چاند پیکر تو نظر میں تھا ہماری لیکن
چودھویں کا ہے، غضب کا یہ قمر؟، پوچھا نہیں
کیسے وہ قتل کرے گا مرا قاتل مجھ کو
قتل ہونا تھا مجھے اُس کا ہنر پوچھا نہیں
ہم بھی گم سُم تھے ، وہاں لوگ بھی بہکے بہکے
ہر کسی پر تھا اثر، کیسا اثر؟ پوچھا نہیں
کون کہتا وہاں اظہر جی کہو کیسے ہو
ایسے مدہوش، کہ کیسا ہے حضر، پوچھا نہیں