متلاشی
محفلین
ایک غزلِ مسلسل اصلاح کے لئے پیشِ خدمت ہے ۔۔۔!
وہ خلوت میں جب سے ہیں آنے لگے
مزے ہم محبت کے پانے لگے
رہا یاد ہم کو نہ کچھ بھی نصر
سوا ان کے سب بھول جانے لگے
پلا کر ہمیں جامِ الفت وہ پھر
ترانے وفا کے سنانے لگے
ہوئے ختم جب جام سب کے سبھی
وہ آنکھوں سے مے پھر پلانےلگے
سنا کر محبت کے قصے ہمیں
یقیں وہ وفا کا دلانے لگے
کیا یوں ہی بے خود انہوں نے ہمیں
ہمیں یوں ہی مجنوں بنانے لگے
ہوا پورا مطلب گئے پھر بدل
شب و روز کرنے بہانے لگے
وہ کر کر تقاضے نئے روز و شب
محبت پھر اپنی جتانے لگے
کھلی آنکھ جب پھر نہ تھا پاس کچھ
ہمیں اپنے سب ہی بیگانے لگے
حقیقت تھے سمجھے جسے کل تلک
وہی آج ہم کو فسانےلگے
جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی
وہ کر کے محبت ٹھکانے لگے
محمد ذیشان نصر