کاشف اسرار احمد
محفلین
احباب محفل ۔۔ ایک غزل پیش ہے۔
..............**********************..............
حسین پھول خطا کے، ندامتوں کی چبھن !
تمام عمر کی مِحنت ہے ، یہ مہکتا چمن!
..............**********************..............
حسین پھول خطا کے، ندامتوں کی چبھن !
تمام عمر کی مِحنت ہے ، یہ مہکتا چمن!
یہ ہے سیاستِ دوراں، یہاں وہ رہبر ہے
کہ جس کو جانتے ہیں سب، کہ ہے کھلا رہزن!
میں بچ کے شہرِ فِتَن سے تو آ گیا، لیکن
گنوا کے خواب، کرا کے لہو لہان بدن!
یہ جانتے ہیں، مگر سب قدم بڑھائے چلیں
کہ منزلوں پہ ملے گا ، رسن کے ساتھ کفن!
کہ جس کو جانتے ہیں سب، کہ ہے کھلا رہزن!
میں بچ کے شہرِ فِتَن سے تو آ گیا، لیکن
گنوا کے خواب، کرا کے لہو لہان بدن!
یہ جانتے ہیں، مگر سب قدم بڑھائے چلیں
کہ منزلوں پہ ملے گا ، رسن کے ساتھ کفن!
وہ بے بسی ہے کہ دیکھے بھی اب نہیں جاتے
صَلِیبِ عمر پہ ، پامال خواہشوں کے بدن!
ق
میں اس کی ایک ہنسی پر، نثار کر ڈالوں
وہ پھول، جن سے مہکتا ہے دامنِ گلشن!
صَلِیبِ عمر پہ ، پامال خواہشوں کے بدن!
ق
میں اس کی ایک ہنسی پر، نثار کر ڈالوں
وہ پھول، جن سے مہکتا ہے دامنِ گلشن!
خَموش راگ ہیں جتنے رَباب میں پِنہاں
جومنتظر ہیں ، لِباسِ حدیثِ فِکر و سُخن!
------------------
ترا وجود، کدُورت کی اِن فَضاؤں میں
مُخالفت میں اندھیروں کے، اک دَمَکتی کِرن!
تمام رات خیالوں میں روشنی کی طرح
تمھاری یاد ستارا تھی، یا چمکتا رتن!
جومنتظر ہیں ، لِباسِ حدیثِ فِکر و سُخن!
------------------
ترا وجود، کدُورت کی اِن فَضاؤں میں
مُخالفت میں اندھیروں کے، اک دَمَکتی کِرن!
تمام رات خیالوں میں روشنی کی طرح
تمھاری یاد ستارا تھی، یا چمکتا رتن!
فریبِ ہی تو ہے احساسِ قرب کا عالم
یہ رات ہجر کی، آنگن میں سرسراتی پَوَن !
اک اُس کی یاد، کہ تنہائی میں پکارا جب
سمٹ کے آ گئی، بانہوں میں جیسے ایک دلھن!
حریمِ غم کے اندھیرے ،اجالنے کے لئے
چراغ ذہن کے ، کاشف جلے پہن کے کفن!
سیّد کاشف
..............**********************..............
یہ رات ہجر کی، آنگن میں سرسراتی پَوَن !
اک اُس کی یاد، کہ تنہائی میں پکارا جب
سمٹ کے آ گئی، بانہوں میں جیسے ایک دلھن!
حریمِ غم کے اندھیرے ،اجالنے کے لئے
چراغ ذہن کے ، کاشف جلے پہن کے کفن!
سیّد کاشف
..............**********************..............