محمد اظہر نذیر
محفلین
ایک غزل ہوی ہے، مطلع میں شک ہے کہ بحر میں ہے کہ نہیں؟ بادی النظر میں تو لگتا
دیدہ دل بھی فرش راہ کیے
دوست پھر بھی کہ آہ، آہ کیے
ڈھونڈ پائے نہ اپنی وہ منزل
اور کھوٹی مری بھی راہ کیے
خود تو اُجڑے مگر ستم اُس پر
گلُ گلزار بھی تباہ کیے
کیسے لاوں میں شاھد الفت؟
چاند تاروں کو ہم گواہ کیے
تیری رحمت کے سامنے کیا ہیں
عمر بھر ہی سہی، گناہ کیے
لوگ اظہر کے تھے تمنائی
اور وہ تھا تری ہی چاہ کیے