محمد اظہر نذیر
محفلین
دے گئے ہو ہجر کی آخر نشانی، کس لئے
پھول، گجرا، رات اور پروا سہانی، کس لئے
مجھ سے تیرا واسطہ کچھ بھی نہیں، چل ٹھیک ہے
آنکھ کو دھندلا رہا، ہلکا سا پانی، کس لئے
طربیہ اغیار کے قصے ہیں سارے ، ٹھیک ہے
المیہ تاثیر میں ، میری کہانی، کس لئے
لگ رہا ہے عشق میں کوئی کمی سی آ گئی
ڈھونڈتا ہے بحرُ بر میں اُس کا ثانی، کس لئے
ہو تصور تک ہی کیوں محدود تیرا وصل کیوں
جھونکنی ہے بھاڑ میں، آخر جوانی، کس لئے
یہ اگر ہو گا تو کیسے، وہ ہوا اظہر تو کیا
تُم کو ملنا ہے تو آو، آنا کانی، کس لیے