بُرا کیا تھا محبت میں ذرا سا مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا
// بُرا کیا تھا محبت میں اگر کچھ مقتدر ہوتا
بہتر واضح کرتا ہے تمہارے مدعا کو
جی بجا ارشاد فرمایا
بُرا کیا تھا محبت میں اگر کچھ مقتدر ہوتا
وصالِ یار بس میری رضا پر منحصر ہوتا
مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتا
کنارے پر اترتے وقت کوئی منتظر ہوتا
//یہاں مراد شاید یہ ہے کہ ’اگر کوئی منتظر ہوتا‘ زیر کے ساتھ، زبر کے ساتھ محل غلط ہے۔ دوسرا مصرع بھی یوں بہتر ہوتا
کنارے پر اترتے جب تو کوئی منتظِر ہوتا۔
جی صحیح
مسافت کی تھکن کا بوجھ کچھ معنی نہیں رکھتاکنارے پر اترتے جب تو کوئی منتظر ہوتا
وفا میری پریشاں کرگئی نامہرباں جیسے
اثر اس کی جفا کا بھی صبا سے منتشر ہوتا
//شعر واضح نہیں۔ صبا سے اثر کا منتشر ہونا سمجھ میں نہیں آتا۔
گویا اُس کی جفائیں ہوا میں تحلیل ہو جاتیں
ابھی تک ہے سرورِ وارداتِ قلب اے واعظ
زمانہ خود کو دہراتا، وقوعہ کاش پھر ہوتا
//یہ تو واضح کسرہ آ گیا ہے۔ پھِر۔
تھوڑی وضاحت ہو جاتی اگر جناب معذرت چاہتا ہوں سمجھ نہیں آیا کہ کہاں
مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے ہی تھا اظہر
ترے جیسا اگر ہوتا، ذرا سا منکسر ہوتا
//دوسرا یوں بہتر اور واضح ہوتا ہے
اگر ہوتا وہ مجھ جیسا تو تھوڑا منکسر ہوتا
جی درست فرمایا
مزاج یار تو برہم ہمیشہ سے ہی تھا اظہراگر ہوتا وہ مجھ جیسا، تو تھوڑا منکسر ہوتا