محمد اظہر نذیر
محفلین
چاند تھا ہمسفر ستارے بھی
منزلوں کے ملے اشارے بھی
دوستی، پیارتھا مقدر میں
راستوں میں ملے سہارے بھی
بھول جاو کرو محبت جو
پھر منافع، سبھی خسارے بھی
سب ہی دنیا میں چھوڑ جانا ہے
گھر، منارے، محل، چوبارے بھی
دل برا ہو تو زہر لگتے ہیں
جھیل، وادی، حسیں نظارے بھی
موت ہتھیار ڈالنے کو کہے
زندگی جنگ پر اُبھارے بھی
لازمی ہے سُنے گا وہ اظہر
کاش کوئی اُسے پکارے بھی