ایک غزل ،'' چاند تھا ہمسفر ستارے بھی'' اصلاح کی غرض سے پیش ہے، اساتذہ توجہ فرماءیں

چاند تھا ہمسفر ستارے بھی​
منزلوں کے ملے اشارے بھی​
دوستی، پیارتھا مقدر میں​
راستوں میں ملے سہارے بھی​
بھول جاو کرو محبت جو​
پھر منافع، سبھی خسارے بھی​
سب ہی دنیا میں چھوڑ جانا ہے​
گھر، منارے، محل، چوبارے بھی​
دل برا ہو تو زہر لگتے ہیں​
جھیل، وادی، حسیں نظارے بھی​
موت ہتھیار ڈالنے کو کہے​
زندگی جنگ پر اُبھارے بھی​
لازمی ہے سُنے گا وہ اظہر​
کاش کوئی اُسے پکارے بھی​
 
تھوڑی تبدیلی کی ہے​

چاند تھا ہمسفر ستارے بھی​
منزلوں کے ملے اشارے بھی​
دوستی، پیارتھا مقدر میں​
راستے بن گئے سہارے بھی​
بھول جاو کرو محبت گر​
پھر منافع، سبھی خسارے بھی​
سب ہی دنیا میں چھوڑ جانا ہے​
گھر، منارے، محل، چوبارے بھی​
دل برا ہو تو زہر لگتے ہیں​
جھیل، وادی، حسیں نظارے بھی​
موت ہتھیار ڈالنے کو کہے​
زندگی جنگ پر اُبھارے بھی​
لازمی ہے سُنے گا وہ اظہر​
کاش کوئی اُسے پکارے بھی​
 
مزید تبدیلیاں کی ہیں اساتذہ کی رہنمائی کا منتظر ہوں

چاند تھا ہمسفر ستارے بھی
منزلوں کے ملے اشارے بھی
دوستی، پیار مل گیا چلتے
راستے بن گئے سہارے بھی
بھول بیٹھا ہوں سب محبت میں
کیا منافع؟ سبھی خسارے بھی
قبر میں ساتھ تک نہیں دیتے
گھر، منارے، محل، چوبارے بھی
دل برا ہو تو زہر لگتے ہیں
جھیل، وادی، حسیں نظارے بھی
موت ہتھیار ڈالنے کو کہے
زندگی جنگ پر اُبھارے بھی
منتظر رب ہے عرش پر بیٹھا
کاش اظہر اُسے پکارے بھی
 
اپنے تئیں کچھ بہتری کی کوشش

چاند تھا ہمسفر ستارے بھی
منزلوں کے ملے اشارے بھی

دوستی، پیارمل گیا چلتے
راستے بن گٗئے سہارے بھی

بھول بیٹھا ہوں سب محبت میں
کیا منافع؟ سبھی خسارے بھی

قبر میں کام کچھ نہیں آتے
گھر، زمینیں، محل، منارے بھی

دل برا ہو تو زہر لگتے ہیں
جھیل، وادی، حسیں نظارے بھی

موت ہتھیار ڈالنے کو کہے
زندگی پیر کچھ پسارے بھی

منتظر رب ہے عرش پر بیٹھا
کوئی اظہر اُسے پکارے بھی
 

الف عین

لائبریرین
آخری شکل دیکھے بغیر اصلاح کر چکا تھا۔ پیش ہے:

یہ غزل ماشاء اللہ کافی بہتر ہے، بس روانی کی کمی ہے اور ردیف اکثر جگہ محاورے کے خلاف نظم ہوئی ہے۔

چاند تھا ہمسفر ستارے بھی
منزلوں کے ملے اشارے بھی
// درست۔

دوستی، پیار مل گیا چلتے
راستے بن گئے سہارے بھی
// ’چلتے‘ سے کیا مطلب، ’راہ چلتے‘ سے مراد ہے؟ ان معنوں میں ’چلتے چلتے‘ ہونا چاہئے۔ جیسے
چلتے چلتے ہی مل گئے ساتھی
زیادہ بہتر اور رواں ہے۔

بھول بیٹھا ہوں سب محبت میں
کیا منافع؟ سبھی خسارے بھی
// سب منافع، سبھی خسارے بھی
کیسا رہے گا؟ میں مطمئن نہیں ہوں ابھی بھی۔ محاورہ تو ’کیا منافع کیا خسارہ‘ ہوتا ہے، بغیر ’بھی‘ کے جو ردیف میں ہی ہے۔

قبر میں ساتھ تک نہیں دیتے
گھر، منارے، محل، چوبارے بھی
// چوبارے، مکمل ہی بولا جاتا ہے، اسے چُبارہ کہنا غلط تلفظ ہے۔ اور اس قافئے کی ضرورت کیا ہے؟
گھر، محل بھی؛ کلس، منارے بھی
کہا جا سکتا ہے۔ محاورہ کے لحاظ سے۔ اگر ’بھی‘ ہو تو ایک سے زائد الفاظ کے ساتھ ہونا چاہئے۔
ویسے محاورے کے حساب سے پہلے مصرع میں ’تک‘ کے ساتھ ’بھی‘ غیر ضروری ہی ہے۔ یعنی ’بھی‘ دو بار کرنے کے با وجود یہ سقم باقی رہتا ہے، لیکن اتنا بڑا اور واضح نہیں رہ جاتا۔

دل برا ہو تو زہر لگتے ہیں
جھیل، وادی، حسیں نظارے بھی
//’نظارے بھی ‘تو درست ہے لیکن اس مصرع کا پہلا حصہ نہیں، کہ ’جھیل، وادی‘ انہیں معنوں کے الفاظ نہیں ، اس کے بدلے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے جیسے
دل لبھاتے حسیں نظارے بھی

موت ہتھیار ڈالنے کو کہے
زندگی جنگ پر اُبھارے بھی
//پہلا مصرع اس طرح زیادہ رواں ہو سکتا ہے۔
موت کہتی ہے ڈال دو ہتھیار

منتظر رب ہے عرش پر بیٹھا
کاش اظہر اُسے پکارے بھی
// یہاں بھی پہلے مصرع میں روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
عرش پر بیٹھا منتظر ہے خدا
زیادہ رواں لگتا ہے نا؟
 
چاند تھا ہمسفر ستارے بھی
منزلوں کے ملے اشارے بھی
چلتے چلتے ہی مل گئے ساتھی
راستے بن گئے سہارے بھی
بھول بیٹھا ہوں میں محبت میں
سب منافع، سبھی خسارے بھی
قبر میں کام کچھ نہیں اآتے
گھر محل بھی، کلس منارے بھی
جی بُرا ہو تو زہر لگتے ہیں
دل لبھاتے حسیں نظارے بھی
موت کہتی ہے پھینک دو ہتھیار
زندگی جنگ پر اُبھارے بھی
عرش پر منتظر ہے رب لیکن
کاش اظہر اُسے پکارے بھی
 

الف عین

لائبریرین
ہاں اب بہتر ہے غزل، کچھ مشورے تم نے من و عن قبول کر لئے ہیں، اور کچھ کی زیادہ بہتر شکل قبول کی ہے۔
 
جناب محمد ساجد صاحب،
یہ بحر - بحر خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع

افاعیل - فاعِلاتُن مُفاعِلُن فَعلُن(پہلے رکن فاعلاتن کی جگہ مخبون رکن فعلاتن بھی آسکتا ہے، آخری رکن فعلن کی جگہ فعلان، فَعِلن اور فَعِلان بھی آسکتا ہے یوں آٹھ وزن اکھٹے ہو سکتے ہیں)۔

اشاری نظام - 2212 2121 22
ہندسوں کو اردو رسم الخط کے مطابق پڑھیے یعنی دائیں سے بائیں یعنی 2212 پہلے پڑھیے۔ اور اس میں بھی 12 پہلے ہے۔
(پہلے 2212 کی جگہ 2211 اور آخری 22 کی جگہ 122، 211 اور 1211 بھی آ سکتا ہے)


تقطیع کچھ یوں ہو گی
چا (2) د(1) تا (2) ہم(2)
س(1) فر(2) س(1)تا(2)
رے(2) بی(2)

باقی اساتذہ کا انتظار کیجیے ہماری طرح
 

محمد ساجد

محفلین
کچھ دوستوں کی طرح میں بھی نیا ہوں
اوزان کے مطابق شعر کہنے کے لیے پہلے بحر منتخب کرنی چاہیے یا شعر کہہ کر اسے کسی بحر کے مطابق ڈھالنا چاہیے ؟
 
شعر کہا جاتا ہے، ایسا مجھے سچ جانیے کہ معلوم نہیں، بیٹھے بیٹھے اُلٹے سیدھے خیالات آتے ہیں، لکھ لیتا ہوں، پہلے بڑی بگڑی شکل میں آتے تھے، جب سے اُستاد محترم نے نظر عنایت کی ہے، کچھ مترنم سے خیالات آتے ہیں۔
آپ کو جو بھی خیال آئے اسے لکھ لیجیے آہستہ آہستہ تھیک ہو جاتا
اندر کہیں لگن بہت ضروری ہے، میں صرف اتنا جانتا ہوں
باقی میرے اُستاد محترم آپ کی رہنمائی فرمائیں گے
خاکسار
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
بحر میں اشعار کہنے کےلئے کچھ تو موزونی طبع کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ عام طور پر شاعری کا زیادہ مطالعہ کرنے والوں کو یہ احساس اکثر ہو جاتا ہے کہ کون سا مصرع وزن میں ہے اور کون سا خارج۔ اس لئے سب سے ضروری تو یہ ہے کہ مطالعہ بہت سا کیا جائے۔ اساتذہ اور مستند شاعروں کا، مبتدی لوگ دوسرے مبتدیوں کا کلام پڑھیں تو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس کے بعد اصلاح میں آسانی ہوتی ہے۔ ورنہ اساتذہ کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے کہ پہلے یہ طے کیا جائے کہ قریب ترین کون سی بحر ہو سکتی ہے جس میں اس کو فٹ کیا جائے۔
یہ زیادہ تر غزل کے بارے میں ضروری ہے۔ نظم میں اگر آزاد نظم کہنا چاہیں تو محض کچھ ارکان کا علم ہونا کافی ہے۔ اس کو ہی مختلف تعداد میں لا کر آزاد نظم کہی جا سکتی ہے۔ رہا سوال نثری نظم کا، تو وہ کسی طرح بھی کہی جا سکتی ہے، بس یہ التزام رکھا جائے کہ وہ مسلسل ایک ہی خیال اور موضوع پر ہو، بے بحری غزل نہ ہو۔
 

عین عین

لائبریرین
بہت خوب اظہر۔ تمھاری یہ بات بہت اچھی لگی کہ تم نے خود ہی اپنے اشعار کو کئی مرتبہ تراشا ۔ تبدیلیاں کرتے رہے اور بار بار نظر سے گزارا۔ دیکھو کہ تمھاری پہلی پوسٹ سے اخری تک کیسے بہتری ہوتی رہی۔ میں اس روش کو قائم رکھنے کی درخواست کرتا ہوں تم سے۔ یہ عادت تمھیں بہت فائدہ دے گی جس کا مشاہدہ یہاں کیا جاسکتا ہے اور مجھ جیسے مبتدی بھی اگر اس کی عادت ڈال لیں تو بہت فائدہ ہو گا ۔

جی بُرا ہو تو زہر لگتے ہیں
دل لبھاتے حسیں نظارے بھی
بہت اچھے۔
 
Top