عبدالوہاب سخن
محفلین
پتھر تمام شہرِ ستمگر کے ہو گئے
جتنے تھے آئنے وہ مرے گھر کے ہو گئے
شاید کہ یہ زمانہ انہیں پوجنے لگے
کچھ لوگ اِس خیال سے پتھر کے ہو گئے
سفاک موسموں نے عجب سازشیں رچیں
ٹکڑے ہوا کے ہاتھوں گلِ تر کے ہو گئے
محور سے اُن کو کھینچ نہ پائی کوئی کشش
شوقِ طواف میں جو ترے در کے ہو گئے
وہ اپنے لاشعور سے ہجرت نہ کر سکا
میرے ارادے سات سمندر کے ہو گئے
میری بلندیوں پہ تھی جِن کی نظر سخنؔ
میں خوش ہوں وہ بھی میرے برابر کے ہو گئے
عبدالوہاب سخن
جتنے تھے آئنے وہ مرے گھر کے ہو گئے
شاید کہ یہ زمانہ انہیں پوجنے لگے
کچھ لوگ اِس خیال سے پتھر کے ہو گئے
سفاک موسموں نے عجب سازشیں رچیں
ٹکڑے ہوا کے ہاتھوں گلِ تر کے ہو گئے
محور سے اُن کو کھینچ نہ پائی کوئی کشش
شوقِ طواف میں جو ترے در کے ہو گئے
وہ اپنے لاشعور سے ہجرت نہ کر سکا
میرے ارادے سات سمندر کے ہو گئے
میری بلندیوں پہ تھی جِن کی نظر سخنؔ
میں خوش ہوں وہ بھی میرے برابر کے ہو گئے
عبدالوہاب سخن
آخری تدوین: