ایک غزل احباب کی نذر (سر رہ جب کبھی جو زلف یار من کا خم نکلے)

اپنے ابتدائی دور کی ایک غزل آج سامنے آ گئی تو سوچا اس پر احباب کی رائے لے لی جائے۔ یہ غزل غالباََ 2012ء میں کہی تھی۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شہرہ آفاق غزل "ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے " سے متاثر ہو کراس لیے غزل روایتی انداز میں ہے۔

سر رہ جب کبھی جو زلف یار من کا خم نکلے

سر رہ جب کبھی جو زلف یار من کا خم نکلے
نجانے کتنوں کا ایمان کتنوں کا ہی دم نکلے

فصیل جسم سے مجھ کو صدائیں آنے لگتی ہیں
خطا سے جو حدود وقت سے باہر قدم نکلے

خموشی نے بتایا ہے ہمیں یہ راز محفل میں
کہ جلوہ گاہ جاناں سے لیے اک روپ ہم نکلے

ملاقاتوں سے باتوں سے شناسائی ہوئی ہم کو
نقاب مسکراہٹ میں چھپے کتنے ہی غم نکلے

کبھی جن سے ملی نظریں لکھیں جن کے لیے نظمیں
مرے وہ نور نظر و جاں شہ اہل ستم نکلے

جو کہتے تھے کبھی بھی آزما لینا کہیں پر بھی
کہ عامر وقت آنے پر انھیں کے ظرف کم نکلے

عامر گولڑوی
سید عمران محمد عبدالرؤوف الف عین سید عاطف علی سیما علی
 

سیما علی

لائبریرین
اپنے ابتدائی دور کی ایک غزل آج سامنے آ گئی تو سوچا اس پر احباب کی رائے لے لی جائے۔ یہ غزل غالباََ 2012ء میں کہی تھی۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب کی شہرہ آفاق غزل "ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے " سے متاثر ہو کراس لیے غزل روایتی انداز میں ہے۔

سر رہ جب کبھی جو زلف یار من کا خم نکلے

سر رہ جب کبھی جو زلف یار من کا خم نکلے
نجانے کتنوں کا ایمان کتنوں کا ہی دم نکلے

فصیل جسم سے مجھ کو صدائیں آنے لگتی ہیں
خطا سے جو حدود وقت سے باہر قدم نکلے

خموشی نے بتایا ہے ہمیں یہ راز محفل میں
کہ جلوہ گاہ جاناں سے لیے اک روپ ہم نکلے

ملاقاتوں سے باتوں سے شناسائی ہوئی ہم کو
نقاب مسکراہٹ میں چھپے کتنے ہی غم نکلے

کبھی جن سے ملی نظریں لکھیں جن کے لیے نظمیں
مرے وہ نور نظر و جاں شہ اہل ستم نکلے

جو کہتے تھے کبھی بھی آزما لینا کہیں پر بھی
کہ عامر وقت آنے پر انھیں کے ظرف کم نکلے

عامر گولڑوی
سید عمران محمد عبدالرؤوف الف عین سید عاطف علی سیما علی
اللہ اللہ ہمیں کہاں ٹیگ کرتے ہیں ہم کہاں ۔۔۔۔
:X3::X3::X3::X3::X3::X3::X3::X3:
عاطف بھیا ،روفی بھیا ،
استاد محترم
مفتی صاحب
درست ٹیگ ہیں۔۔۔🙏🏻🙏🏻🙏🏻🙏🏻
 
Top