ایک غزل احباب کی نذر

اشرف نقوی

محفلین
دوستی اُس کی اگرچہ ہے پرانی مجھ سے
پھر بھی دریا نے طلب کی ہے نشانی مجھ سے

میں کہ ڈوبا ہوں تو سینے پہ لیے پھرتی ہے
کتنی مانوس ہے لہروں کی روانی مجھ سے


اُڑتے بادل مِری آنکھوں میں اُتر آتے ہیں
اور دریا بھی طلب کرتا ہے پانی مجھ سے

میرے لہجے میں تھی تاثیر کچھ ایسی شب بھر
وقت سُنتا ہی رہا اپنی کہانی مجھ سے


بات کرتے ہوئے لہجے میں تھکن بولتی ہے
چھن گئی عشق میں سب شعلہ بیانی مجھ سے


لفظ نازل ہوں اگر دل پہ غزل کی صورت
بات کرنے چلے آتے ہیں معانی مجھ سے


وہ حکایت کہ جو تحریر سرِ مژگاں ہے
کاش! سُن لیتا کوئی میری زبانی مجھ سے


وہ ستارہ جو فلک پر ہے فروزاں اشرفؔ
آخرش کر ہی گیا نقل مکانی مجھ سے


اشرف نقوی
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top