معذرت کہ یہ اصل شکل کی اصلاح ہے، اب آن لائن مہاری تبدیلیوں کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔
پھر ملے تھے، جب بھی بچھڑے، دائرہ کم ہی رہا
تیری جانب سے جدائی، مسئلہ کم ہی رہا
//ابلاغ کا مسئلہ تو زیادہ ہی رہا شاید۔
مکر ہم کو بھول پن نے مات دی ورنہ تجھے
کب کہ ہم پہچان لیتے، شائبہ کم ہی رہا
//واضح نہیں۔ ابلاغ درست نہیں ہو رہا
صورت احوال کی گہرائیاں سمجھے نہ ہم
عکس کی منظر کشی کو آئنہ کم ہی رہا
//دوسرا مصرع کیا خوب ہے، پہلا مصرع اس معیار کا نہیں۔ ’صورت احوال‘ کی جگہ کچھ دوسرا لفظ لاؤ تو بہتر ہو۔ ایک متبادل تو یہ ہو سکتا ہے
گردشِ حالات کی گہرائیاں۔۔۔۔
مزید سوچیں
ہم سمجھ پاتے اداوں کو تری شائد مگر
جور سے آزار سے کچھ واسطہ کم ہی رہا
//پہلے مصرع میں روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے
یوں کہیں تو
ہم مبادا کچھ سمجھ پاتے اداوں کو تری
کیا کہیں، جور و ستم سے واسطہ۔۔۔
مر گئے بن موت روگی، الفتیں لگتی رہیں
اُن کے بس ادراک میں یہ عارضہ کم ہی رہا
//الفتیں کیسے لگتی ہیں بھائی؟ سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرے مصرع میں بھی ’بس‘ کی نشست درست نہیں۔ اس کا کچھ سوچو
پیڑ میری آرزو کا ،اُس کو پانے کے لئے
دن بدن بڑھتا گیا، پر رابطہ کم ہی رہا
//’ اُس کو پانے کے لئے‘ سے کیا مراد ہے؟ سمجھ میں نہیں آ سکا
دور تک منزل کہاں؟ نامُ نشاں اظہر نہ تھا
اور کہنے کو دلوں میں راستہ کم ہی رہا
//پہلی بات تو یہ کیا واو عطف تم نے کہیں تحریری نہیں دیکھا جو اس کے تلفظ کے حساب سے املا کرتے ہو۔ پیش لگا کر۔ درست ’نام و نشاں‘ ہوتا ہے۔
اس کو یوں کر سکتے ہو
دور تک منزل کا کچھ نام و نشاں اظہر نہ تھا
یوں تو کہنے کو۔۔۔۔
نئے اشعار
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں تھا بس تنہا سفر
ساتھ کوئی ہمسفر اور قافلہ کم ہی رہا
÷÷درست اگرچہ دوسرا مصرع اب بھی کچھ پسند نہیں آیا۔
آس کے پیڑوں میں اظہر نے جو رکھی تھی لچک
توڑنے اک شاخ کو پھر زلزلہ کم ہی رہا
دوسرے مصرع مین روانی کم ہے، اسے یوں بہتر کیا جا سکتا ہے
ایک ٹہنی توڑنے کو زلزلہ کم ہی رہا