ایک غزل اساتذہ کرام کی توجہ چاہتی ہے،'' شکر ہے طرف جدائی مسئلہ کم ہی رہا'' اصلاح کیجیے گا ازراہ کرم

شکر ہے طرف جدائی مسئلہ کم ہی رہا
پھر ملے تھے، جب بھی بچھڑے، دائرہ کم ہی رہا
ہم کو اپنے بھول پن نے مات دی ورنہ مکر
تجھ کو ہم پہچان لیتے، شائبہ کم ہی رہا
صورت احوال کی گہرائیاں سمجھے نہ ہم
عکس کی منظر کشی کو آئنہ کم ہی رہا
ہم سمجھ پاتے اداوں کو تری شائد مگر
جور سے آزار سے کچھ واسطہ کم ہی رہا
مر گئے بن موت روگی، سادگی کی انتہا
دیکھئے تو یہ محبت عارضہ کم ہی رہا
اُس کو پانے کے لئے میرا وہ شجر آرزو
دن بدن بڑھتا گیا، پر رابطہ کم ہی رہا
دور تک منزل کہاں؟ نامُ نشاں اظہر نہ تھا
اور کہنے کو دلوں میں راستہ کم ہی رہا
 
کچھ تبدیلیاں

پھر ملے تھے، جب بھی بچھڑے، دائرہ کم ہی رہا
تیری جانب سے جدائی، مسئلہ کم ہی رہا
مکر ہم کو بھول پن نے مات دی ورنہ تجھے
کب کہ ہم پہچان لیتے، شائبہ کم ہی رہا
صورت احوال کی گہرائیاں سمجھے نہ ہم
عکس کی منظر کشی کو آئنہ کم ہی رہا
ہم سمجھ پاتے اداوں کو تری شائد مگر
جور سے آزار سے کچھ واسطہ کم ہی رہا
مر گئے بن موت روگی، الفتیں لگتی رہیں
اُن کے بس ادراک میں یہ عارضہ کم ہی رہا
پیڑ میری آرزو کا ،اُس کو پانے کے لئے
دن بدن بڑھتا گیا، پر رابطہ کم ہی رہا
دور تک منزل کہاں؟ نامُ نشاں اظہر نہ تھا
اور کہنے کو دلوں میں راستہ کم ہی رہا
 
مزید کچھ تبدیلیاں :angel:

پھر ملے ہم، جب بھی بچھڑے، دائرہ کم ہی رہا
تیری جانب سے جدائی، مسئلہ کم ہی رہا
مکر ہم کو بھول پن نے مات دی ورنہ تجھے
ٹھیک سے پہچان لیتے، شائبہ کم ہی رہا
صورت احوال کی گہرائیاں سمجھے نہ ہم
عکس کی منظر کشی کو آئنہ کم ہی رہا
ہم سمجھ پاتے اداوں کو تری شائد مگر
جور سے آزار سے کچھ واسطہ کم ہی رہا
مر گئے بن موت روگی، نفرتیں ایسے لگیں
اُن کے پر ادراک میں یہ عارضہ کم ہی رہا
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں تھا بس تنہا سفر
ساتھ کوئی ہمسفر اور قافلہ کم ہی رہا
دور تک منزل کہاں؟ نامُ نشاں کوئی نہ تھا
اور کہنے کو دلوں میں راستہ کم ہی رہا
آس کے پیڑوں میں اظہر نے جو رکھی تھی لچک
توڑنے اک شاخ کو پھر زلزلہ کم ہی رہا
 

الف عین

لائبریرین
معذرت کہ یہ اصل شکل کی اصلاح ہے، اب آن لائن مہاری تبدیلیوں کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔
پھر ملے تھے، جب بھی بچھڑے، دائرہ کم ہی رہا
تیری جانب سے جدائی، مسئلہ کم ہی رہا
//ابلاغ کا مسئلہ تو زیادہ ہی رہا شاید۔

مکر ہم کو بھول پن نے مات دی ورنہ تجھے
کب کہ ہم پہچان لیتے، شائبہ کم ہی رہا
//واضح نہیں۔ ابلاغ درست نہیں ہو رہا

صورت احوال کی گہرائیاں سمجھے نہ ہم
عکس کی منظر کشی کو آئنہ کم ہی رہا
//دوسرا مصرع کیا خوب ہے، پہلا مصرع اس معیار کا نہیں۔ ’صورت احوال‘ کی جگہ کچھ دوسرا لفظ لاؤ تو بہتر ہو۔ ایک متبادل تو یہ ہو سکتا ہے
گردشِ حالات کی گہرائیاں۔۔۔۔
مزید سوچیں

ہم سمجھ پاتے اداوں کو تری شائد مگر
جور سے آزار سے کچھ واسطہ کم ہی رہا
//پہلے مصرع میں روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے
یوں کہیں تو
ہم مبادا کچھ سمجھ پاتے اداوں کو تری
کیا کہیں، جور و ستم سے واسطہ۔۔۔


مر گئے بن موت روگی، الفتیں لگتی رہیں
اُن کے بس ادراک میں یہ عارضہ کم ہی رہا
//الفتیں کیسے لگتی ہیں بھائی؟ سمجھ میں نہیں آیا۔ دوسرے مصرع میں بھی ’بس‘ کی نشست درست نہیں۔ اس کا کچھ سوچو

پیڑ میری آرزو کا ،اُس کو پانے کے لئے
دن بدن بڑھتا گیا، پر رابطہ کم ہی رہا
//’ اُس کو پانے کے لئے‘ سے کیا مراد ہے؟ سمجھ میں نہیں آ سکا

دور تک منزل کہاں؟ نامُ نشاں اظہر نہ تھا
اور کہنے کو دلوں میں راستہ کم ہی رہا
//پہلی بات تو یہ کیا واو عطف تم نے کہیں تحریری نہیں دیکھا جو اس کے تلفظ کے حساب سے املا کرتے ہو۔ پیش لگا کر۔ درست ’نام و نشاں‘ ہوتا ہے۔
اس کو یوں کر سکتے ہو
دور تک منزل کا کچھ نام و نشاں اظہر نہ تھا
یوں تو کہنے کو۔۔۔۔

نئے اشعار
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں تھا بس تنہا سفر​
ساتھ کوئی ہمسفر اور قافلہ کم ہی رہا​
÷÷درست اگرچہ دوسرا مصرع اب بھی کچھ پسند نہیں آیا۔​
آس کے پیڑوں میں اظہر نے جو رکھی تھی لچک​
توڑنے اک شاخ کو پھر زلزلہ کم ہی رہا​
دوسرے مصرع مین روانی کم ہے، اسے یوں بہتر کیا جا سکتا ہے​
ایک ٹہنی توڑنے کو زلزلہ کم ہی رہا​
 
Top