ایک غزل - اس کے کردار کی اس کے گفتار کی

ایک تازہ غزل پیش کر رہا ہوں۔
تمام احباب کی رائے ، تنقید اور تبصروں کا منتظر رہونگا !
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اُس کے کردار کی اُس کے گفتار کی !
دل میں چبھتی رہی نوک تلوار کی !

آؤ باتیں کریں ، خوب ہنس کر ملیں
کچھ طبیعت ہو آسودہ غمخوار کی !

تلخ یادوں کے دریا سے آگے بڑھے
ہم نے رَو پار کی غم کے مُنجدھار کی !

اب تو برسوں کی دوری پہ ہیں گھر سے ہم
کچھ خبر ہی نہیں یار اغیار کی !

مستقل دے رہا ہے خبر دیس کی
برکتیں عمر میں ہوں اس اخبار کی !

تنگدستی میں دل چاہتا ہے کہ ہم
گھر اٹھا لائیں ہر چیز بازار کی !

سلسلے گمشدہ قوم سے ہیں مرے
اب سند کیا دوں میں اپنے کردار کی !

جس رفاقت کی کاشف یہ تصویر ہے
ان سرابوں سے پسپائی اقرار کی !

سیّد کاشف
★★★★★★★★★★★★★★★★★★
 
Top