محمد اظہر نذیر
محفلین
پھولوں کو جیسے مجھ سے ذرا چھین لے گئی
خوشبو سے مل رہا تھا، ہوا چھین لے گئی
جانے کہاں نکل گیا، یادوں کو چنتے میں
پھر دور سے اک آئی صداچھین لے گئی
اب اور تجھ میں باقی، بچا کیا ہے زندگی
میری بقا تھی جس میں، قضا چھین لے گئی
اُلفت کی باگ ڈور رہی میرے ہاتھ میں
چھوٹی سی ہو گئی تھی خطا چھین لے گئی
میرا یقین کھا سا گئی جیسے بدظنی
ایسے لگا کہ مانو خدا چھین لے گئی
پتھر پڑے تھے عقل پہ، اظہر یہ کیا کیا
قاتل ادا وہ تجھ سے ذکا چھین لے گئی