محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
بہت ہی سنگ دل ہوتے ہیں یہ کافر ادا چہرے
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
کٹی ہے عمر ساری قید میں، الفت ہے زنداں سے
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ گرو کچھ تو
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
محمد اظہر نذیر صاحب، بات کرنے کی اجازت ہے؟
احباب کی زیرک نگاہی اور عمدہ مشوروں کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ غزل کی اب تک جو صورت بنی ہے اُسی کی بنیاد پر آگے چلتے ہیں۔
محبت میں دغا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
ہمیں خود سے جدا کرنے کا سوچو ، تو بتا دینا
میری ذاتی رائے ہے کہ ردیف میں ہر جگہ ’’کا‘‘ کی بجائے ’’کی‘‘ ہونا چاہئے۔ بہرحال یہ معاملہ چونکہ روزمرہ اور محاورہ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے لکھاری اپنے علاقائی محاورے کے مطابق جسے راجح سمجھے۔ مطلع کا مضمون روایت سے کسی قدر ہٹ کر ضرور ہے، تاہم اس میں کوئی ناکردنی یا ناگفتنی بھی نہیں، لہٰذا میں اس کو ’’مناسب‘‘ قرار دیتا ہوں۔
بہت ہی سنگ دل ہوتے ہیں یہ کافر ادا چہرے
کسی بت کو خدا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
پہلا مصرعہ اپنے اولین متن کی نسبت تو بہت بہتر ہو گیا، تاہم ایک سوال ہنوز باقی ہے۔ چہرے سنگ دل ہوتے ہیں یا چہروں والے سنگ دل ہوتے ہیں؟ توجہ فرمائیے گا۔ دیکھئے، ہمارے آپ کے کہے میں بہتری کی گنجائش ہمہ وقت ہوتی ہے۔ میرے دوست تھے ڈاکٹر رؤف امیر (مرحوم) کہا کرتے تھے اپنے لکھے پر کبھی مطمئن نہیں ہونا، اس کو مانجھتے اور پالش کرتے رہا کرو۔ ’’بت کو خدا کرنے کی‘‘ تازہ کاری کی عمدہ مثال ہے۔ اس ٹکڑے میں نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہ روایت سے مربوط رہ کر اپنی انفرادیت کا اظہار کر رہا ہے۔
کٹی ہے عمر ساری قید میں، الفت ہے زنداں سے
جو زلفوں سے رہا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
پہلے مصرعے میں تعقیدِ لفظی کی صورت پیدا ہو رہی ہے، اس کو کسی طور سنوار لیں تو بہت اچھا شعر بنتا ہے۔ دوسرے، زندان سے الفت، محبت کی بجائے اگر ’’مانوس ہونا‘‘ ہو سکے تو اور بھی اچھا ہے۔ خیال اگرچہ بہت پرانا ہے تاہم اظہار مناسب ہے اور اِس غزل کی عمومی فضا میں جچ رہا ہے۔ شعر میں تعقید کسی نہ کسی طور موجود ہوتی ہے کہیں کم کہیں زیادہ، اور فن یہ ہے کہ قواعد کا دھیان رکھتے ہوئے صوتی اور معنوی سطح پر ملائمت برقرار رہے۔ میں ذاتی طور پر غزل میں بالخصوص ملائمت کا قائل ہوں، احباب کی رائے کا احترام اپنی جگہ واجب ہے۔ کچھ شعراء بطورِ خاص تنویر سپرا کی شناخت ہی ان کا کھردرا لہجہ ہے، اور ان کے ہاں اس کھردرے لہجے کا جواز بھی تو ہے۔
ہمیں چاہا ہے تُم نے، مانتے ہیں، ٹھیک ہے لیکن
کبھی اس کے سوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
یہ شعر پوری غزل کی فضا میں کمزور لگ رہا ہے۔ پہلا مصرعہ اب تک کی متعدد ترامیم کے بعد بھی ’’جان دار‘‘ نہیں بن پایا۔ اسے غالبآ عجزِ بیان کہا جاتا ہے؟ کہ بات ویسی بن نہیں پائی جیسے کہنی مقصود تھی۔ ’’کہنی مقصود تھی‘‘ اور ’’کہنا مقصود تھا‘‘ یہ معاملہ بھی بہت زیرِ بحث رہتا ہے۔ ایک شعر (شاعر کا نام اس وقت ذہن میں نہیں):
پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی اب تک
کیسے آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا
مریض عشق ہے اظہر، کرو چارہ گرو کچھ تو
کبھی اُسکی دوا کرنے کا سوچو، تو بتا دینا
پہلا مصرع اچھا ہے، دوسرا مصرع معنوی سطح پر پہلے مصرعے کی ٹکر کا نہیں کہ اس میں تشکیک کا عنصر پایا جاتا ہے، جس کا جواز پہلے مصرعے میں فراہم نہیں کیا گیا۔ اس پر بھی توجہ فرمائیے گا۔ یہاں ایک اہم نکتہ: الفاظ کو بلا ضرورت ملا کر لکھنا مستحسن نہیں ہے۔ ’’اُسکی‘‘ کو ’’اُس کی‘‘ لکھنا نفاست اور دورَ حاضر کی کمپیوٹر کی ضروریات دونوں لحاظ سے بہتر ہے۔ خطاطی کی بات اور ہے، کہ وہاں لفظوں کی ظاہری شکل معنویت پر فوقیت رکھتی ہے۔
میرا طریقہ (اگرچہ کچھ احباب اس سے متفق نہیں) یہی ہے کہ تجاویز اور دلائل جہاں تک بن سکے پیش کر دیتا ہوں، الفاظ اور عبارت کیا ہو، اور کیسے ہو، یہ خود صاحبِ کلام پر ہے، میں اُس کے منہ میں لفظ ڈالنے والا کون ہوتا ہوں!۔ اور اس سے اہم تر بات یہ ہے کہ مجھے جو عرض کرنا تھا، میں نے کر دیا۔ شاعر کو مکمل حق حاصل ہے کہ میرے کہے کو کلی یا جزوی طور پر قبول کر لے یا رد کر دے۔
خوش رہیں۔