محمد اظہر نذیر
محفلین
بولتا ہے پہ سُنائی نہیں دیتا مجھ میں
کون ہے؟ جلوہ نُمائی نہیں دیتا مجھ میں
میں تصور میں ترے ایسے گھرا رہتا ہوں
اور مجھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا مجھ میں
دیکھتا روز ہوں تذلیل بنی آدم کی
آدمی ہے کہ دہائی نہیں دیتا مجھ میں
میرے احساس کا جیسے کے ہو پرتو چہرہ
کچھ چھپاؤں تو چھپائی نہیں دیتا مجھ میں
وہ تصور کی بُلندی پہ مری بیٹھا تھا
گر گیا ہے تو اُٹھائی نہیں دیتا مجھ میں
میرے اندر ہے کسی یاد کا کہرا اظہر
ہاتھ سے ہاتھ سُجھائی نہیں دیتا مجھ میں