ایک غزل اصلاح کے لئے --- جنت، دوزخ بعد کی باتیں، پہلے دنیا واجب ہے

احباب، میں پھر اک نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں۔ استاد محترم الف عین سر اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے-

cleardot.gif
جہاں جہاں بھی کھویا تم نے، حاصل کرنا واجب ہے

جنت، دوزخ بعد کی باتیں، پہلے دنیا واجب ہے

تم برسوں سے کھول نہ پائے جس کا لفافہ وہ پیغام
آدھا تم کو بھیج چکا ہوں، تم پر آدھا واجب ہے

جانی پہچانی دستک تھی، دروازے کو کھول دیا
ساری عمر کا پچھتاوا کیا میرے مولا واجب ہے؟

جس نے محبت کے قرضے میں عمر لگا دی اس کے نام
موت کی آہٹ آنے تک بھی، تنکا تنکا واجب ہے

بھاگ رہا ہو گُرگ سے بچ کر برّہ جیسے جنگل میں
انساں کو انساں سے بھائی، اتنا خطرہ واجب ہے

ایک زمیں ہے، اک محور ہے، دن اور سال کی گردش ہے
مجھ پر بھی اب ایسا ہی کچھ الٹا سیدھا واجب ہے

کنکر پتھر مار کے ہم نے جس کو بےحس کر ڈالا
اُس شیطان پر اے مالک اب کتنا قرضہ واجب ہے؟

"بھول ہی جانا، جدا ہوئے تو"، اک دوجے سے کہا تھا یہ
اس نے وعدہ نبھا دیا ہے، مجھ پر ایفا واجب ہے

اک نقطے میں سمٹ گیا تھا روشن چہرہ اور دِیا
صبحِ درخشاں پر کاشف اب، وہیں سے اجرا واجب ہے

سیّد کاشف

شکریہ !
 

الف عین

لائبریرین
جہاں جہاں بھی کھویا تم نے، حاصل کرنا واجب ہے
÷÷کیا حاصل کرنا، یہ واضح نہیں ہوا، اور کیا کھویا یہ بھی نہیں۔ ربط پیدا کرنے کے لیے بہتر ہے کہ ’بھی‘ کو ’جو‘ سے بدل دو
جہاں جہاں جو کھویا تم نے، حاصل کرنا واجب ہے
اور
انساں کو انساں سے بھائی، اتنا خطرہ واجب ہے
÷÷انساں سے، جو ’ساسے‘ پڑھا جاتا ہے، صوتی اعتبار سے ناگوار ہے۔
انساں کو انسان سے بھائی
کر دو
 
جہاں جہاں بھی کھویا تم نے، حاصل کرنا واجب ہے
÷÷کیا حاصل کرنا، یہ واضح نہیں ہوا، اور کیا کھویا یہ بھی نہیں۔ ربط پیدا کرنے کے لیے بہتر ہے کہ ’بھی‘ کو ’جو‘ سے بدل دو
جہاں جہاں جو کھویا تم نے، حاصل کرنا واجب ہے
اور
انساں کو انساں سے بھائی، اتنا خطرہ واجب ہے
÷÷انساں سے، جو ’ساسے‘ پڑھا جاتا ہے، صوتی اعتبار سے ناگوار ہے۔
انساں کو انسان سے بھائی
کر دو
بہت بہتر سر! ایسا ہی کرتا ہوں ۔
جزاک اللہ
 

اعوان جی

محفلین
مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو
کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں
اُن کے سینے میں بھی شہکار ہُوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رُلا دیتی ہے
وہ ستاروں کے عزادار ہُوا کرتے ہیں
جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں
در حقیقت وہی فنکار ہُوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں
دُشمنی کے بھی تو معیار ہُوا کرتے ہیں
محسن نقوی
اگلا لفظ خوددار
 

الف عین

لائبریرین
یہ غزل پسندیدہ کلام کی نئی لڑی میں پوسٹ کی جاتی، اس لڑی میں کاشف اسرار نے اپنی غزل اصلاح کے لیے پیش کی ہوئی ہے، اگر خود دیکھ لیتے تو یہ غلطی سرزد نہ ہوتی
 
احباب، میں پھر اک نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں۔ استاد محترم الف عین سر اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے-

cleardot.gif
جہاں جہاں بھی کھویا تم نے، حاصل کرنا واجب ہے

جنت، دوزخ بعد کی باتیں، پہلے دنیا واجب ہے

تم برسوں سے کھول نہ پائے جس کا لفافہ وہ پیغام
آدھا تم کو بھیج چکا ہوں، تم پر آدھا واجب ہے


جانی پہچانی دستک تھی، دروازے کو کھول دیا
ساری عمر کا پچھتاوا کیا میرے مولا واجب ہے؟


جس نے محبت کے قرضے میں عمر لگا دی اس کے نام
موت کی آہٹ آنے تک بھی، تنکا تنکا واجب ہے


بھاگ رہا ہو گُرگ سے بچ کر برّہ جیسے جنگل میں
انساں کو انساں سے بھائی، اتنا خطرہ واجب ہے


ایک زمیں ہے، اک محور ہے، دن اور سال کی گردش ہے
مجھ پر بھی اب ایسا ہی کچھ الٹا سیدھا واجب ہے


کنکر پتھر مار کے ہم نے جس کو بےحس کر ڈالا
اُس شیطان پر اے مالک اب کتنا قرضہ واجب ہے؟


"بھول ہی جانا، جدا ہوئے تو"، اک دوجے سے کہا تھا یہ
اس نے وعدہ نبھا دیا ہے، مجھ پر ایفا واجب ہے


اک نقطے میں سمٹ گیا تھا روشن چہرہ اور دِیا
صبحِ درخشاں پر کاشف اب، وہیں سے اجرا واجب ہے


سیّد کاشف

شکریہ !
Boht khoobsurat
 
Top