کاشف اسرار احمد
محفلین
احباب، میں پھر اک نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں۔ استاد محترم الف عین سر اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے-
جہاں جہاں بھی کھویا تم نے، حاصل کرنا واجب ہے
جنت، دوزخ بعد کی باتیں، پہلے دنیا واجب ہے
تم برسوں سے کھول نہ پائے جس کا لفافہ وہ پیغام
آدھا تم کو بھیج چکا ہوں، تم پر آدھا واجب ہے
جانی پہچانی دستک تھی، دروازے کو کھول دیا
ساری عمر کا پچھتاوا کیا میرے مولا واجب ہے؟
جس نے محبت کے قرضے میں عمر لگا دی اس کے نام
موت کی آہٹ آنے تک بھی، تنکا تنکا واجب ہے
بھاگ رہا ہو گُرگ سے بچ کر برّہ جیسے جنگل میں
انساں کو انساں سے بھائی، اتنا خطرہ واجب ہے
ایک زمیں ہے، اک محور ہے، دن اور سال کی گردش ہے
مجھ پر بھی اب ایسا ہی کچھ الٹا سیدھا واجب ہے
کنکر پتھر مار کے ہم نے جس کو بےحس کر ڈالا
اُس شیطان پر اے مالک اب کتنا قرضہ واجب ہے؟
"بھول ہی جانا، جدا ہوئے تو"، اک دوجے سے کہا تھا یہ
اس نے وعدہ نبھا دیا ہے، مجھ پر ایفا واجب ہے
اک نقطے میں سمٹ گیا تھا روشن چہرہ اور دِیا
صبحِ درخشاں پر کاشف اب، وہیں سے اجرا واجب ہے
سیّد کاشف
شکریہ !
جنت، دوزخ بعد کی باتیں، پہلے دنیا واجب ہے
تم برسوں سے کھول نہ پائے جس کا لفافہ وہ پیغام
آدھا تم کو بھیج چکا ہوں، تم پر آدھا واجب ہے
جانی پہچانی دستک تھی، دروازے کو کھول دیا
ساری عمر کا پچھتاوا کیا میرے مولا واجب ہے؟
جس نے محبت کے قرضے میں عمر لگا دی اس کے نام
موت کی آہٹ آنے تک بھی، تنکا تنکا واجب ہے
بھاگ رہا ہو گُرگ سے بچ کر برّہ جیسے جنگل میں
انساں کو انساں سے بھائی، اتنا خطرہ واجب ہے
ایک زمیں ہے، اک محور ہے، دن اور سال کی گردش ہے
مجھ پر بھی اب ایسا ہی کچھ الٹا سیدھا واجب ہے
کنکر پتھر مار کے ہم نے جس کو بےحس کر ڈالا
اُس شیطان پر اے مالک اب کتنا قرضہ واجب ہے؟
"بھول ہی جانا، جدا ہوئے تو"، اک دوجے سے کہا تھا یہ
اس نے وعدہ نبھا دیا ہے، مجھ پر ایفا واجب ہے
اک نقطے میں سمٹ گیا تھا روشن چہرہ اور دِیا
صبحِ درخشاں پر کاشف اب، وہیں سے اجرا واجب ہے
سیّد کاشف
شکریہ !