ایک غزل اصلاح کے لیے پیش کرنے کی جسارت

میری عمر 41 سال ہے۔ صرف 2 سال قبل اردو شاعری شروع کی ہے۔ اساتذہ کی خدمت میں ایک جاہل کی حیثیت سے اپنی ایک غزل پیش کرنے کی جرات کر رہا ہوں۔ غالباً علامہ اقبال کی کسی غزل کی زمین میں ہے۔ غالباً اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یو پی (انڈیا) کا نجیب طرفین خون رگوں میں ہونے کے با وجود اردو شاعری سے واقف نہیں ہوں اور نہ ہی کوئی میرا اردو شاعری کے ضمن میں استاد ہے۔ تاہم فارسی، عربی، انگریزی، سنسکرت، اردو تھوڑی بہت آتی ہے۔ غزل کی خود کار تقطیع کے لیے جناب سید ذیشان اصغر صاحب کی ویب سائٹ کا تہہ دل سے ممنون ہوں۔ دل کی گہرائیوں سے اساتذہ کی رہ نمائی در کار ہے۔ بہت بہت نوازش ہو گی۔ ویب سائٹ کے مطابق یہ غزل متقارب مثمن سالم/فعولن فعولن فعولن فعولن میں ہے۔
عاصمؔ شمس
ایم اے انگریزی ادب،
مدیر اعلی و سینئر پروڈیوسر،
بول میڈیا گروپ

۔۔۔غزل۔۔۔

رقیبوں تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں مٹا چاہتا ہوں

مجھے بادِ صر صر سے شکوہ ہی کیسا
کہ بنجر شجر ہوں گرا چاہتا ہوں

مرے دردِ دل کو نئی آنچ دے دے
مسیحا میں ایسی دوا چاہتا ہوں

تری زلف چھیڑے جو ناز و ادا سے
میں وہ شوخ دستِ صبا چاہتا ہوں

میں شب نم نہیں ہوں جو مژگاں پہ ٹہروں
میں اشکِ گراں ہوں گرا چاہتا ہوں

ملے تارِ ہستی کو مضرابِ غم اب
میں سازِ عدم ہوں نوا چاہتا ہوں

پکڑ جام و ساغر صراحی و مینا
ترے در سے ساقی اٹھا چاہتا ہوں

عاصمؔ شمس
10-2-16
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت آچھی غزل ہے عاصم صاحب ۔
البتہ ایک آدھ بات ضروری معلوم ہوتی ہے ۔ جب جمع کے صیغے کو مخاطب کیا جائے تو نون غنہ سلیم مزاج پر کافی گراں گزرتا ہے ۔
رقیبو! تمہاری دعا چاہتا ہوں۔ لکھا جانا چاہیئے۔
دوسر ے یہ کہ شجر بنجر نہیں ہوتے
خستہ ہو سکتے ہیں البتہ زمین بنجر ہوت سکتی ہے۔ ۔ ۔
بہرحال آپ کی غزل اچھی لگی ۔ تعارف کے زمرے میں آپ کا تفصیلی تعارف کرائیے اگر مناسب سمجھیں ۔
 
بہت آچھی غزل ہے عاصم صاحب ۔
البتہ ایک آدھ بات ضروری معلوم ہوتی ہے ۔ جب جمع کے صیغے کو مخاطب کیا جائے تو نون غنہ سلیم مزاج پر کافی گراں گزرتا ہے ۔
رقیبو! تمہاری دعا چاہتا ہوں۔ لکھا جانا چاہیئے۔
دوسر ے یہ کہ شجر بنجر نہیں ہوتے
خستہ ہو سکتے ہیں البتہ زمین بنجر ہوت سکتی ہے۔ ۔ ۔
بہرحال آپ کی غزل اچھی لگی ۔ تعارف کے زمرے میں آپ کا تفصیلی تعارف کرائیے اگر مناسب سمجھیں ۔

بہت بہت شکریہ جناب سید عاطف علی صاحب۔ اصلاح کے بعد پوسٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر سائٹ سپورٹ نہیں کر رہی۔ پتہ نہیں کیا ماجرا ہے۔ توجہ دلانے کا بہت بہت شکریہ۔ تعارف بھی پوسٹ نہیں ہو رہا۔
 
Senior Content Editor-Producer-Concept Writer (Bilingual) at BOL Media Group
Ex Editorial Writer at Aga Khan Medical University
Ex English Content Writer at Geo TV
Ex Senior Journalist at The News
Ex Assistant Editor at Oxford University Press
Studied MA English Literature in (UK) in 1997​
 
۔۔۔غزل۔۔۔

رقیبو تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں مٹا چاہتا ہوں

مجھے بادِ صر صر سے شکوہ ہی کیسا
کہ بوڑھا شجر ہوں گرا چاہتا ہوں

مرے دردِ دل کو نئی آنچ دے دے
مسیحا میں ایسی دوا چاہتا ہوں

تری زلف چھیڑے جو ناز و ادا سے
میں وہ شوخ دستِ صبا چاہتا ہوں

میں شب نم نہیں ہوں جو مژگاں پہ ٹہروں
میں اشکِ گراں ہوں گرا چاہتا ہوں

ملے تارِ ہستی کو مضرابِ غم اب
میں سازِ عدم ہوں نوا چاہتا ہوں

پکڑ جام و ساغر صراحی و مینا
ترے در سے ساقی اٹھا چاہتا ہوں

عاصمؔ شمس
10۔2۔16
 
اساتذہ سے ایک سوال
جناب پوچھنا چاہتا ہوں کہ تقطیع کرتے وقت اراکین کو الگ الگ کیسے کرتے ہیں۔ ویب سائٹ تو خود بخود ظاہر کر دیتی ہے مثلا میرا یہ شعر:
رقیبو تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں گرا چاہتا ہوں
ویب سائٹ کے مطابق فعولن فعولن فعولن فعولن یا 1222+1222+1222+1222 میں ہے۔ لیکن کاپی پر ہاتھ سے تقطیع کرنے کے بعد میں یہ کیسے سمجھوں گا کہ اراکین کو کس طرح سیٹ یا جدا کرنا ہے۔ اس کا بنیادی اصول کیا ہو گا۔ شائد میں اپنی بات پوری طرح سمجھا نہیں پا رہا۔ اگر اساتذہ میرا مسئلہ سمجھ کر جواب دے دیں تو مجھ جیسے جاہل پر گراں احسان ہو گا، نوازش۔ اس کے علاوہ میں عروض سے تقریبآ اچھی طرح واقف ہوں۔ بس کسی بھی کتاب میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔
عاصمؔ شمس​
 

ابن رضا

لائبریرین
خوش آمدید، اچھی کوشش کے لیے بہت سی داد ، کچھ صلاح مشورے قبول کیجیے

رقیبوں تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں مٹا چاہتا ہوں
رقیبو کے بارے میں عاطف بھائی نے بتا دیا


مجھے بادِ صر صر سے شکوہ ہی کیسا
کہ بنجر شجر ہوں گرا چاہتا ہوں

"ہی" بھرتی کا ہے ، اجڑا شجر یا شکستہ شجر

مرے دردِ دل کو نئی آنچ دے دے
مسیحا میں ایسی دوا چاہتا ہوں
درد کی بجائے سوز کی نسبت آنچ سے زیادہ بہتر ہے مراعات النظیر بہتر بنایئے



تری زلف چھیڑے جو ناز و ادا سے
میں وہ شوخ دستِ صبا چاہتا ہوں

خوب ہے

میں شب نم نہیں ہوں جو مژگاں پہ ٹہروں
میں اشکِ گراں ہوں گرا چاہتا ہوں

شبنم عموماؐ ایک ساتھ لکھا جاتا ہے اور شبنم کو پھولوں پہ ٹھہرنا چاہیے نا کہ مژگاں پر

ملے تارِ ہستی کو مضرابِ غم اب
میں سازِ عدم ہوں نوا چاہتا ہوں

اب بھرتی کا ہے

پکڑ جام و ساغر صراحی و مینا
ترے در سے ساقی اٹھا چاہتا ہوں
جام و ساغر کے بعد صراحی ہ مینا صرف تکرار ہے اس کو آپ بدل کرمضمون مزید بہتر کر سکتے ہیں آپ

نوٹ: اتفاق یا عدم اتفاق آپ کا حق ہے
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
اساتذہ سے ایک سوال
جناب پوچھنا چاہتا ہوں کہ تقطیع کرتے وقت اراکین کو الگ الگ کیسے کرتے ہیں۔ ویب سائٹ تو خود بخود ظاہر کر دیتی ہے مثلا میرا یہ شعر:
رقیبو تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں گرا چاہتا ہوں
ویب سائٹ کے مطابق فعولن فعولن فعولن فعولن یا 1222+1222+1222+1222 میں ہے۔ لیکن کاپی پر ہاتھ سے تقطیع کرنے کے بعد میں یہ کیسے سمجھوں گا کہ اراکین کو کس طرح سیٹ یا جدا کرنا ہے۔ اس کا بنیادی اصول کیا ہو گا۔ شائد میں اپنی بات پوری طرح سمجھا نہیں پا رہا۔ اگر اساتذہ میرا مسئلہ سمجھ کر جواب دے دیں تو مجھ جیسے جاہل پر گراں احسان ہو گا، نوازش۔ اس کے علاوہ میں عروض سے تقریبآ اچھی طرح واقف ہوں۔ بس کسی بھی کتاب میں اس سوال کا جواب نہیں ملتا۔
عاصمؔ شمس​
اگر آپ بحر کے اراکین کی بات کر رہے جیسے آپ کی بحر متقارب سالم کے مثمن یعنی آٹھ ایک جیسے رکن ہیں چار پہلے مصرع میں اور چار دوسرے میں

تقطیع :

فعولن : ر قی بو
فعولن: تُ ما ری
فعولن : د عا چا
فعولن: ہ تا ہو (نوں غنہ تقطیع میں نہیں آتا)

فعولن: مِ حرفے
فعولن: غ لط ہو
فعولن : مٹا چا
فعولن: ہ تا ہو
 

ابن رضا

لائبریرین
نیز اس طرح کی بحور میں مصرع کو اگر دو برابر حصوں میں بانٹا جائے تو لفظ ٹوٹیں نہ مکمل ادا ہو ں تو روانی متاثر نہیں ہوتی جیسا کہ آپ کی غزل میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے
 
بہت
خوش آمدید، اچھی کوشش کے لیے بہت سی داد ، کچھ صلاح مشورے قبول کیجیے

رقیبوں تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں مٹا چاہتا ہوں
رقیبو کے بارے میں عاطف بھائی نے بتا دیا


مجھے بادِ صر صر سے شکوہ ہی کیسا
کہ بنجر شجر ہوں گرا چاہتا ہوں

"ہی" بھرتی کا ہے ، اجڑا شجر یا شکستہ شجر

مرے دردِ دل کو نئی آنچ دے دے
مسیحا میں ایسی دوا چاہتا ہوں
درد کی بجائے سوز کی نسبت آنچ سے زیادہ بہتر ہے مراعات النظیر بہتر بنایئے



تری زلف چھیڑے جو ناز و ادا سے
میں وہ شوخ دستِ صبا چاہتا ہوں

خوب ہے

میں شب نم نہیں ہوں جو مژگاں پہ ٹہروں
میں اشکِ گراں ہوں گرا چاہتا ہوں

شبنم عموماؐ ایک ساتھ لکھا جاتا ہے اور شبنم کو پھولوں پہ ٹھہرنا چاہیے نا کہ مژگاں پر

ملے تارِ ہستی کو مضرابِ غم اب
میں سازِ عدم ہوں نوا چاہتا ہوں

اب بھرتی کا ہے

پکڑ جام و ساغر صراحی و مینا
ترے در سے ساقی اٹھا چاہتا ہوں
جام و ساغر کے بعد صراحی ہ مینا صرف تکرار ہے اس کو آپ بدل کرمضمون مزید بہتر کر سکتے ہیں آپ

نوٹ: اتفاق یا عدم اتفاق آپ کا حق ہے

بہت شکریہ جناب۔ ہم جدید صحافت میں اب الفاظ کو توڑ کر لکھتے ہیں اس لیے پیشہ ورانہ عادت کے طور پر شبنم کو شب نم لکھ دیا۔ ایک بات یہ پوچھنی ہے کہ ’بھرتی‘ سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے بے معنی لفظ اور اس کے بدلے وزن پورا کرنے کے لیے کوئی اور با معنی لفظ استعمال کیا جائے؟ بہت بہت نوازش ہو گی جناب۔ آپ کی تجاویز کی روشنی میں غز ل کی اصلاح کر رہا ہوں۔ شکریہ
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت


بہت شکریہ جناب۔ ہم جدید صحافت میں اب الفاظ کو توڑ کر لکھتے ہیں اس لیے پیشہ ورانہ عادت کے طور پر شبنم کو شب نم لکھ دیا۔ ایک بات یہ پوچھنی ہے کہ ’بھرتی‘ سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کا مطلب ہے بے معنی لفظ اور اس کے بدلے وزن پورا کرنے کے لیے کوئی اور با معنی لفظ استعمال کیا جائے؟ بہت بہت نوازش ہو گی جناب۔ آپ کی تجاویز کی روشنی میں غز ل کی اصلاح کر رہا ہوں۔ شکریہ
جی بھرتی سے مراد ایسے الفاظ جو صرف وزن کو پورا کرنے کے لیے شامل کیے جائیں جن کو نکال دینے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو
 
اگر آپ بحر کے اراکین کی بات کر رہے جیسے آپ کی بحر متقارب سالم کے مثمن یعنی آٹھ ایک جیسے رکن ہیں چار پہلے مصرع میں اور چار دوسرے میں

تقطیع :

فعولن : ر قی بو
فعولن: تُ ما ری
فعولن : د عا چا
فعولن: ہ تا ہو (نوں غنہ تقطیع میں نہیں آتا)

فعولن: مِ حرفے
فعولن: غ لط ہو
فعولن : مٹا چا
فعولن: ہ تا ہو

جناب بہت بہت شکریہ۔ یہ بات تو میرے علم میں ہے۔ بس میں یہ نہیں سجھ پا رہا کہ آپ نے اعداد کی لائن میں سے فعولن کو کیسے دریافت کیا؟ شاید اس کے لیے پہلے پوری غزل کی تقطیع کرنی ہو گی اور پھر جوڑے دھونڈھ کر انہیں کوئی نام دیا جائے گا؟ شکریہ
اگر آپ بحر کے اراکین کی بات کر رہے جیسے آپ کی بحر متقارب سالم کے مثمن یعنی آٹھ ایک جیسے رکن ہیں چار پہلے مصرع میں اور چار دوسرے میں

تقطیع :

فعولن : ر قی بو
فعولن: تُ ما ری
فعولن : د عا چا
فعولن: ہ تا ہو (نوں غنہ تقطیع میں نہیں آتا)

فعولن: مِ حرفے
فعولن: غ لط ہو
فعولن : مٹا چا
فعولن: ہ تا ہو
 
تو وزن کرنا کے لیے پھر با معنی لفظ یا الفاظ تو شامل کرنے ہی ہوں گے؟ شکریہ
شمس بھائی ، وزن پورا کرنے کیلیے کوئی ایسا لفظ شامل کیا جائے جو معانی و تفہیم میں ابہام پیدا کرے یا اضافی محسوس ہو وہ عیب سخن ہی ہوتا ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
جناب بہت بہت شکریہ۔ یہ بات تو میرے علم میں ہے۔ بس میں یہ نہیں سجھ پا رہا کہ آپ نے اعداد کی لائن میں سے فعولن کو کیسے دریافت کیا؟ شاید اس کے لیے پہلے پوری غزل کی تقطیع کرنی ہو گی اور پھر جوڑے دھونڈھ کر انہیں کوئی نام دیا جائے گا؟ شکریہ
جب بات بحور اور ان کے اراکین کی ہو تو چند گنے چنے افاعیل سب جانتے ہیں جیسا کہ فعولن، فاعلاتن، مفاعیلن وغیرہ۔ اگر آپ ان ارکان کی ہئیت پر غور کر یں تو یہ ہمارے شعروں کے الفاظ انہی اراکین کے ہم ہیئت ہوتے ہیں مثال کے طور پر جمالی کو دیکھ لیجیے اگر اس لفظ کو توڑیں گے تو جَ ما لی پہلے حرف کے علاوہ اگلے دونوں حصے دو حرفی ہیں جو کہ فعولن سے اس طرح ملتے ہیں کہ ف یک حرفی ہے اور عو اور لن دو حرفی ہیں ۔ ان حروف کی حرکات و سکون پر غور کریں
 
۔۔۔غزل۔۔۔

رقیبو تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں مٹا چاہتا ہوں

مجھے بادِ صر صر سے شکوہ نہیں ہے
کہ اجڑا شجر ہوں گرا چاہتا ہوں

مرے سوزِ دل کو نئی آنچ دے دے
مسیحا میں ایسی دوا چاہتا ہوں

تری زلف چھیڑے جو ناز و ادا سے
میں وہ شوخ دستِ صبا چاہتا ہوں

میں شب نم نہیں ہوں جو پلکوں پہ ٹہروں
میں اشکِ گراں ہوں گرا چاہتا ہوں

ملے تارِ ہستی کو مضرابِ غم کی
میں سازِ عدم ہوں نوا چاہتا ہوں

پکڑ جام و ساغر صراحی و مینا
ترے در سے ساقی اٹھا چاہتا ہوں

عاصمؔ شمس
10۔2۔16

بہت بہت شکریہ آپ سب اساتذہ کرام کا۔
 
شمس بھائی شبنم کو شب نم نہیں شبنم لکھنا ہی درست ہے ۔ اردو ادب اور سخنوری کسی رواج صحافت کے نہیں اردو زبان و بیان اور اسلوب سخن کے تابع ہے۔ سخن میں صحافت جیسی ڈنڈی اور دھونس نہیں چلتی ۔ اور یہی اس کا حسن ہے
 

ابن رضا

لائبریرین
کچھ مزید تجاویز

رقیبو تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں مٹا چاہتا ہوں
درست

مجھے بادِ صر صر سے شکوہ نہیں ہے
کہ اجڑا شجر ہوں گرا چاہتا ہوں
میں اجڑا شجر ہوں گرا چاہتا ہوں
یا
میں بوڑھا ۔ ۔

مرے سوزِ دل کو نئی آنچ دے جو
مسیحا میں ایسی دوا چاہتا ہوں

تری زلف چھیڑے جو ناز و ادا سے
میں وہ شوخ دستِ صبا چاہتا ہوں

میں شبنم نہیں کہ پھولوں پہ ٹھہروں
میں اشکِ گراں ہوں گرا چاہتا ہوں
میں کی تکرار پھر بھی مناسب نہیں

ملے تارِ ہستی کو مضرابِ سوزاں
میں سازِ عدم ہوں نوا چاہتا ہوں

پکڑ جام و ساغر صراحی و مینا
ترے در سے ساقی اٹھا چاہتا ہوں
جام و ساغر اور صراحی و مینا ایک ہی بات ہے تو بار بار کیوں
 
آخری تدوین:
جناب بہت بہت شکریہ۔ یہ بات تو میرے علم میں ہے۔ بس میں یہ نہیں سجھ پا رہا کہ آپ نے اعداد کی لائن میں سے فعولن کو کیسے دریافت کیا؟ شاید اس کے لیے پہلے پوری غزل کی تقطیع کرنی ہو گی اور پھر جوڑے دھونڈھ کر انہیں کوئی نام دیا جائے گا؟ شکریہ

عاصم شمس بھائی۔ اوپر کہیں آپ نے لکھا ہے کہ آپ کو عربی آتی ہے۔ اگر عربی گرامر پڑھی ہے تو افعال کا وزن ضرور نکالا ہوگا۔ یعنی کسی بھی فعل کےاصلی حروف نکال کر ان کی جگہ ف ع ل لکھا ہوگا ۔ جیسے یسمعُ کو یفعلُ لکھ کر اس کا وزن معلوم کیا۔

ایک اور طرح سے اسے دیکھیے۔ اس شعر کو پڑھیے

فاعلاتن فاعلاتُن فاعلات
ایک تھپڑ ایک گھونسہ ایک لات
اب اگر پہلے فاعلاتُن اور ایک تھپڑ کو یا دوسرے فاعلاتُن کو ایک گھونسا یا فاعلات کو ایک لات سے بدل دیں تب بھی شعر کے وزن میں فرق نہیں پڑے گا۔ یعنی
ایک تھپڑ کا وزن فاعلاتُن ہوا
ایک گھونسا کا وزن فاعلاتُن ہوا
اور ایک لات کا وزن فاعلات ہوا

ہماری مانیے تو اس فاعلاتُن کے چکر میں نہ پڑیے ۔ اصل شے وزن کا ادراک ہے جو آپ میں ماشاء اللہ ہے۔ قافیےاور ردییف کی سمجھ ہے جو آپ میں ماشاء اللہ موجود ہے ۔ بس اللہ کانام لے کر شعر موزوں کیجیے۔

مزید معلومات کے لیے ہمارے دستخط میں موجود ہمارے مضمون شاعری سیکھنے کا بنیادی قاعدہ کا ضرور مطالعہ کیجیے۔ تمام بحور کا ازبر ہونا اور علمِ عروض ثانوی چیز ہے۔ شاعری کرنے کے لیے، ان کی چنداں ضرورت نہیں، طبیعت موزوں ہونی چاہیے اور بس۔
 
کچھ مزید تجاویز

رقیبو تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں مٹا چاہتا ہوں
درست

مجھے بادِ صر صر سے شکوہ نہیں ہے
کہ اجڑا شجر ہوں گرا چاہتا ہوں
میں اجڑا شجر ہوں گرا چاہتا ہوں
یا
میں بوڑھا ۔ ۔

مرے سوزِ دل کو نئی آنچ دے جو
مسیحا میں ایسی دوا چاہتا ہوں

تری زلف چھیڑے جو ناز و ادا سے
میں وہ شوخ دستِ صبا چاہتا ہوں

میں شبنم نہیں کہ پھولوں پہ ٹھہروں
میں اشکِ گراں ہوں گرا چاہتا ہوں
میں کی تکرار پھر بھی مناسب نہیں

ملے تارِ ہستی کو مضرابِ سوزاں
میں سازِ عدم ہوں نوا چاہتا ہوں

پکڑ جام و ساغر صراحی و مینا
ترے در سے ساقی اٹھا چاہتا ہوں
جام و ساغر اور صراحی و مینا ایک ہی بات ہے تو بار بار کیوں

۔۔۔غزل۔۔۔

رقیبو تمہاری دعا چاہتا ہوں
میں حرفِ غلط ہوں مٹا چاہتا ہوں

مجھے بادِ صر صر سے شکوہ نہیں ہے
کہ اجڑا شجر ہوں گرا چاہتا ہوں

مرے سوزِ دل کو نئی آنچ دے جو
مسیحا میں ایسی دوا چاہتا ہوں

تری زلف چھیڑے جو ناز و ادا سے
میں وہ شوخ دستِ صبا چاہتا ہوں

میں شبنم نہیں ہوں جو پھولوں پہ ٹہروں
اک اشکِ گراں ہوں گرا چاہتا ہوں

ملے تارِ ہستی کو مضرابِ سوزاں
میں سازِ عدم ہوں نوا چاہتا ہوں

پکڑ جام و ساغر ہٹا زلف و صہبا
ترے در سے ساقی اٹھا چاہتا ہوں

عاصمؔ شمس
10۔2۔16

رہ نمائی کا بہت بہت شکریہ جناب
 
Top