ایک غزل اصلاح کے لیے

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بات کرتا رہا سمندر سے
کوئی بولا نہیں تھا اندر سے

اپنی مستی میں مست رہتا ہوں
یہی سیکھا ہے بس قلندر سے

ہم خدا ہیں مگر ہیں پتھر کے
آ رہی ہے صدا یہ مندر سے

ایک رشتہ تھا دشت سے میرا
ایک رشتہ رہا سمندر سے

بات جیسی بھی ہو مگر خرم
بات کرتا ہے دل کے اندر سے
 

الف عین

لائبریرین
بس دو اشعار میں کچھ کہنے کی گنجائش ہے۔ ایک تو مندر کا تلفظ غلاط باندھا گیا ہے۔ درست دال پر زیر ہے۔ مندِر۔
اور دوسرے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ دل کے اندر سے بات کیسے کی جا سکتی ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
وہی بات اب بھی لکھ رہا ہوں اصلاح کے بعد بھی

دو اشعار پر ہی اعتراض کیا جا سکتا ہے، باقی تو درست ہیں۔ ایک تو مقطع۔۔ دل کے اندر سے کیسے بات کی جاتی ہے، یہ شاید صرف تم کو معلوم ہے۔
دوسرے مندر کے بارے میں کہہ چکا ہوں کہ درست مندِر ہے۔
اس کے علاوہ بہتر ہو کہ اس شعر کو یوں کہو
ایک رشتہ تھا دشت سے بھی مراایک رشتہ رہا سمندر سےویسے دوسرے مصرع میں بھی ’بھی‘ آ سکتا تو بہتر تھا، لیکن کم از کم ایک جگہ آ جائے تو مطلب واضح ہو جائے۔
 
Top