خرم شہزاد خرم
لائبریرین
بات کرتا رہا سمندر سے
کوئی بولا نہیں تھا اندر سے
اپنی مستی میں مست رہتا ہوں
یہی سیکھا ہے بس قلندر سے
ہم خدا ہیں مگر ہیں پتھر کے
آ رہی ہے صدا یہ مندر سے
ایک رشتہ تھا دشت سے میرا
ایک رشتہ رہا سمندر سے
بات جیسی بھی ہو مگر خرم
بات کرتا ہے دل کے اندر سے
کوئی بولا نہیں تھا اندر سے
اپنی مستی میں مست رہتا ہوں
یہی سیکھا ہے بس قلندر سے
ہم خدا ہیں مگر ہیں پتھر کے
آ رہی ہے صدا یہ مندر سے
ایک رشتہ تھا دشت سے میرا
ایک رشتہ رہا سمندر سے
بات جیسی بھی ہو مگر خرم
بات کرتا ہے دل کے اندر سے