ایک غزل امام عالی مقام کے نام،'' خوشبو حسینیت کی جو پھیلی ہوا میں ہے'' اصلاح، تبصرہ و تنقید کیلئے

خوشبو حسینیت کی جو پھیلی ہوا میں ہے
ممبا ہو ڈھونڈنا تو کہیں کربلا میں ہے

پاؤں حسین کے ہی رکھوں نقش پا پہ میں
اپنی فنا کے بعد بقا، اس دعا میں ہے

اس کو خبر نہیں ہے کہ عاشور آ گیا
ہونی سے بے خبر ہے، محرم ادا میں ہے

کیسے نہیں قبول مری ہو دعا کہو
نانا حسین کا بھی مری ہر صدا میں

اظہر حسینیت کا جو مرہم نصیب ہو
مرض ۔ یزیدیت سے شفا اس دوا میں ہے​
 
درست لفظ " منبع " ہے۔
بہت شکریہ جناب اصلاح کیلئے

خوشبو حسینیت کی جو پھیلی ہوا میں ہے
منبع ہو ڈھونڈنا تو کہیں کربلا میں ہے

پاؤں حسین کے ہی رکھوں نقش پا پہ میں
اپنی فنا کے بعد بقا، اس دعا میں ہے

اس کو خبر نہیں ہے کہ عاشور آ گیا
ہونی سے بے خبر ہے، محرم ادا میں ہے

کیسے نہیں قبول مری ہو دعا کہو
نانا حسین کا بھی مری ہر صدا میں

اظہر حسینیت کا جو مرہم نصیب ہو
مرض ۔ یزیدیت سے شفا اس دوا میں ہے​
 

ابن رضا

لائبریرین
مفعول فاعلات مفاعیل فعلن
مر۔ ضے ۔ ی ۔۔۔ ۔۔ زی ۔ د ۔ یت ۔ س ۔۔۔ ۔۔ ش ۔ فا ۔ اس ۔ د ۔۔۔ ۔۔ و ۔ م ۔ہے
مر۔ ضے ۔ ی ۔۔۔ ۔۔ زی ۔ د ی۔ یت ۔ س ۔۔۔ ۔۔ ش ۔ فا ۔ اس ۔ د ۔۔۔ ۔۔ و َ۔ مِ ۔ہے ( یزیدیّت ) اس لیے خارج ہے

تاہم مَرْض {مَرْض} (عربی) اسم نکرہ معانی (طب) ذہنی یا روحانی بیماری درست ہے۔ ر کا سکون جائز ہے سَرسَری بھائی
 
آخری تدوین:
مر۔ ضے ۔ ی ۔۔۔ ۔۔ زی ۔ د ی۔ یت ۔ س ۔۔۔ ۔۔ ش ۔ فا ۔ اس ۔ د ۔۔۔ ۔۔ و َ۔ مِ ۔ہے ( یزیدیّت ) اس لیے خارج ہے

تاہم مَرْض {مَرْض} (عربی) اسم نکرہ معانی (طب) ذہنی یا روحانی بیماری درست ہے۔ ر کا سکون جائز ہے سَرسَری بھائی
یوں کہا جائے تو

خوشبو حسینیت کی جو پھیلی ہوا میں ہے
منبع ہو ڈھونڈنا تو کہیں کربلا میں ہے

پاؤں حسین کے ہی رکھوں نقش پا پہ میں
اپنی فنا کے بعد بقا، اس دعا میں ہے

اس کو خبر نہیں ہے کہ عاشور آ گیا
ہونی سے بے خبر ہے، محرم ادا میں ہے

کیسے نہیں قبول مری ہو دعا کہو
نانا حسین کا بھی مری ہر صدا میں

اظہر حسینیت کا جو مرہم نصیب ہو
ہر مرض لا دوا سے شفا اس دوا میں ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
پاؤں حسین کے ہی رکھوں نقش پا پہ میں
اپنی فنا کے بعد بقا، اس دعا میں ہے

پہلا مصرع رواں محسوس نہیں ہوتا۔
دوسرے مصرع میں دعا کا ذکر کیا گیا ہے جس کا پہلے مصرع سے کوئی تعلق نہیں بن رہا کہ مصرع اول میں تو ایک عمل کا تذکرہ ہے نہ کہ دعا کا۔
محمد یعقوب آسی ، الف عین
 
پاؤں حسین کے ہی رکھوں نقش پا پہ میں
اپنی فنا کے بعد بقا، اس دعا میں ہے

پہلا مصرع رواں محسوس نہیں ہوتا۔
دوسرے مصرع میں دعا کا ذکر کیا گیا ہے جس کا پہلے مصرع سے کوئی تعلق نہیں بن رہا کہ مصرع اول میں تو ایک عمل کا تذکرہ ہے نہ کہ دعا کا۔
محمد یعقوب آسی ، الف عین
یہ تو بہت آسان ہے میرے خیال سے
کہ میں اُن کے نقش قدم پر چلوں ، مرنے کے بعد میری بقا اسی دعا میں ہو گی
 

الف عین

لائبریرین
اب میری رائے بھی سن لو، ویسے کافی باتوں سے متفق ہوں۔
یزیدیت میں ی پر تشدید پر تو اعتراض کر یدا لیکن حسینیت میں؟ میرے خیال میں اس میں بھی مشدد ی ہونی چاہئے۔
خوشبو حسینیت کی جو پھیلی ہوا میں ہے
منبع ہو ڈھونڈنا تو کہیں کربلا میں ہے
۔۔شکریہ الف نظامی، میں ورنہ سوچ رہا تھا کہ کیا لوممبا صاحب آ گئے!!
پہلے مصرع میں حسینیت کا تلفظ، دوسرے مصرع میں یوں کہا جائے تو روانی بہتر ہو۔
منبع جو ڈھونڈھنا ہو، کہیں کربلا میں ہے

پاؤں حسین کے ہی رکھوں نقش پا پہ میں
اپنی فنا کے بعد بقا، اس دعا میں ہے
÷÷’پا پہ‘ کی وجہ سے رواں نہیں لگ رہا۔ جس خیال
کی وضاحت کی گئی ہے، وہ خیال الفاظ سے ظاہر نہیں ہوتا۔ ’ہی‘ کی نشست بدلنے کی ضرورت ہے۔

اس کو خبر نہیں ہے کہ عاشور آ گیا
ہونی سے بے خبر ہے، محرم ادا میں ہے
÷÷واضح نہیں، ادا کا قافیہ؟؟

اظہر حسینیت کا جو مرہم نصیب ہو
ہر مرض لا دوا سے شفا اس دوا میں ہے
کم از کم مجھے مرض میں مفتوح ر ہی درست لگتا ہے، اگر اضافت میں ہو تب بھی۔
 
Top