ایک غزل برائے اصلاح، '' بھلائی جان کے بھر دو ایاغ دھیرے سے ''

بھلائی جان کے بھر دو ایاغ ، دھیرے سے
ملے گا تشنہ لبو، پھر فراغ، دھیرے سے

میں کھوج لوں گا محبت، جو دفن کر دی تھی
کریدنا بھی پڑا، دل کا داغ ، دھیرے سے

ذرا سی نیند ملی ہے، الم کی بانہوں میں
بجھانا چاہو بجھا دو چراغ، دھیرے سے

کدورتوں کی وجہ جاننا ضروری ہے
ملے گا اُن کا اچانک، سراغ، دھیرے سے

حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کیا کروں اظہر
ابھی قبول کرے گا دماغ ، دھیرے سے
 

الف عین

لائبریرین
بھلائی جان کے بھر دو ایاغ ، دھیرے سے
ملے گا تشنہ لبو، پھر فراغ، دھیرے سے
//دھیرے سے کیوں ؟

میں کھوج لوں گا محبت، جو دفن کر دی تھی
کریدنا بھی پڑا، دل کا داغ ، دھیرے سے
//یہاں بھی دھیرے سے کیوں، زور سے بھی کریدنا پڑے تو کرید لوں گا، یوں ہونا چاہئے تھا۔
پہلے مصرع میں ’ہی‘ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ویسے دفن کر دینے کے لحاظ سے کھوجنے کی بجائے کھودنے کا عمل بہتر ہوتا۔
اس طرغح
جو دفن کر دی تھی الفت، وہ کھوج/کھود ہی لوں گا
کریدنا بھی پڑے، دل کا داغ ، دھیرے سے
(پڑا کی جگہ ’پڑے‘ پر غور کرو۔ دھیرے سے کا سقم اب بھی ہے۔

ذرا سی نیند ملی ہے، الم کی بانہوں میں
بجھانا چاہو بجھا دو چراغ، دھیرے سے
//درست

کدورتوں کی وجہ جاننا ضروری ہے
ملے گا اُن کا اچانک، سراغ، دھیرے سے
//شعر واضح نہیں۔

حقیقتیں ہیں بڑی تلخ، کیا کروں اظہر
ابھی قبول کرے گا دماغ ، دھیرے سے
//کیا کروں‘ کا کیا محل ہے یہاں؟
حقیقتیں ہیں بہت تلخ، لیکن اے اظہر
انہیں قبول کرے گا دماغ ، دھیرے سے
بہتر شکل ہے۔
 
محترم اُستاد،
السلام علیکم،
پہلے شعر میں لکھا اس لئے کہ آپ جانتے کہ جب پیاسا پانی پیتا ہے تو ہونٹ پانی پیتے ساتھ ہی تراوت محسوس نہیں کرتے بلکہ کچھ وقت لگتا ہے اور نجات یعنی فراغ آہستہ سے آرام سے ہی محسوس ہوتا ہے، اسی کو مد نظر رکھتے ہوے یہاں اس کا استعمال کیا ہے گویا کے پیاسے ہونٹوں کی پیاس دھیرے سے آہستہ آہستہ ہی بجھے گی

جو دفن کر دی تھی الفت، وہ کھود ہی لوں گا
کریدنا بھی پڑے، دل کا داغ ، دھیرے سے

ذرا سی نیند ملی ہے، الم کی بانہوں میں
بجھانا چاہو بجھا دو چراغ، دھیرے سے

کدورتوں کی وجہ جاننا ضروری ہے
ملے گا اُن کا بھی آخر، سراغ، دھیرے سے
//شعر واضح نہیں۔
تبدیل بھی کیا ہے ، وضاحت یہ ہے کہ، رنجشوں کی وجہ جانے بغیر اُن کا حل نہیں نکل سکتا ، لیکن اُن کی وجہ اہستہ اہستہ ہی معلوم ہوتی گویا دھیرے دھیرے سے

حقیقتیں ہیں بہت تلخ، لیکن اے اظہر
انہیں قبول کرے گا دماغ ، دھیرے سے


والسلام
اظہر
 
میرے خیال میں یہ مصرح ‘میں کھوج لوں گا محبت جو دفن کردی تھی‘ کہیں بہتر اور موزوں ہے نئے مصرح سے۔۔۔یعنی جو ‘ جو دفن کردی تھی الفت وہ کھود ہی لوں گا‘۔۔۔اس میں شاعری اور نزاکت کا پہلو مفقود ہے۔۔پہلا مصرح ہی بہتر تھا۔ یا پھر کچھ ایسا ہو تو کیا خیال ہے؟۔۔۔
میں کھوج لوں گا محبت، جو تیرگی میں رہی
سلگ اٹھا ہے یہ سینے کا داغ دھیرے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات یہ کہ ’دھیرے سے‘ کا مطلب ’آہستہ آہستہ‘ ’بتدریج‘ قطعی نہیں ہوتا، اس کا اصل مطلب محض بغیر کسی طاقت کے استعمال کے، بغیر زور دئے، وغیرہ ہوتا ہے۔ ان معنوں میں ردیف ہی غلط ہو جاتی ہے۔ مجھے اسی لئے اشعار سمجھ میں نہیں آئے تھے۔
 

الف عین

لائبریرین
درست ہے، میں متفق ہوں، لیکن تمہارے زیادہ تر اشعار میں یہ استعمال نہیں، ’دھیرے دھیرے‘ یا ’بتدریج‘ کی طرح استعمال کیا گیا ہے۔
 
Top