ہمسفر راستوں میں دھول تو ہو
اے تمنا ترا حصول تو ہو
÷÷پچھلا مطلع ہی زیادہ بہتر تھا میرے خیال میں۔ خواہ مخواہ بدلا۔
سر پہ سایہ فگن ببول تو ہو
شجر الفت کی آرزو ہے عبث
کوئی پُر خار اک ببول تو ہو
÷÷شجر میں ش اور ج دونوں متحرک ہیں۔ یہاں بر وزن فعل آ رہا ہے۔ اس کو نخل سے بدل دو تو وزن میں درست آ جائے گا۔
اس میں حجت کی بات کیا ہونا
دست اُٹھے، دعا قبول تو ہو
÷÷کیا ہونا؟ سے مطلب۔ اس سے تو وہ پچھلا روپ ہی بہتر تھا۔
اور ’دست‘ کیا ضروری سمجھ رہے ہو؟ یہاں محض ’ہاتھ‘ زیادہ اچھا لگے گا۔ بلکہ اگر یوں کر دو تو زیادہ قوی بن جائے
ہاتھ اٹھے تو، دعا قبول تو ہو
وہ کہیں راہ میں نہ مل جائے
اپنے ہاتھوں میں ایک پھول تو ہو
÷÷راہ میں ملنے سے کیا خوفزدہ ہو؟ اس بیانیے سے تو یہی لگتا ہے۔
وہ کہیں راہ میں ہی مل جائے
بہتر ہو گا۔
ہجر میں مُبتلا کیا اُس نے
اپنی حرکت پہ وہ ملول تو ہو
÷÷درست
دشمنی میں تو سب ہی جائز ہے
رسم الفت، ترا اصول تو ہو
÷÷یہ کوئی خاص بات نہیں کہی گئی ہے، اس کو نکالا جا سکتا ہے۔
بھول کہتے ہیں پیار کو اظہر
بھول کر ہی سہی، یہ بھول تو ہو
بہت خوب