محمد اظہر نذیر
محفلین
ہجر کا وصل کی شب سے ہی گماں کیوں بولو؟
پاس ہو کر بھی نہیں تُم ہو یہاں ، کیوں بولو؟
بات مشکل تھی جو آسانی سے کہہ دی تُم نے
ہو نہیں پائی وہ چہرے سے عیاں کیوں بولو؟
میں وفاوں پہ تری شک تو نہیں کر سکتا
چوکھٹ غیر پہ قدموں کے نشاں ، کیوں بولو؟
حال دل اُس کو سنانے کا ارادہ کر کے
کہنے لگتا ہوں، نہیں ہوتا بیاں ، کیوں بولو؟
یوں تو کہتے ہو کہ دوری نہیں حائل کوئی
سات پردوں میں یہ رہتے ہو نہاں ، کیوں بولو؟
مان لیتا ہوں یقیں تُم کو ہے وحدت کا مگر
دل میں اظہر، یہ ہے تصویر بتاں ، کیوں بولو