محمد اظہر نذیر
محفلین
بنانے والے، ترا ہے کمال اپنی جگہ
ادائیں اُس کی جدا، اور جمال، اپنی جگہ
میں پوچھ بیٹھا محبت اُسے بھی ہے کہ نہیں
جواب کچھ نہ دیا ہے سوال اپنی جگہ
مرا وہ ہے تو نہیں، ہو مگر تو سکتا ہے
حقیقتوں سے پرے بھی خیال اپنی جگہ
بدل گیا میں تو تقدیر کیسے بدلو ں گا؟
جنوب اپنی جگہ پر،شمال اپنی جگہ
عروج دیکھ کے بیٹھا ہوں ، اور نہیں حسرت
مگر یہ سچ ہے کہ کچھ ہے ملال اپنی جگہ
زمیں ہے ایک تو دوجہ ہے آسماں گویا
حرام اپنی جگہ پر، حلال اپنی جگہ
مزہ یہ ہجر میں جلنے کا کم نہیں اظہر
ترا وصال ابھی تک محال ، اپنی جگہ