محمد اظہر نذیر
محفلین
راستے پر خار بھی تھے، جو سکوں سے کٹ گئے
بلبلے تھے، جب بھی ٹکرائے کہیں تو پھٹ گئے
اب کہاں جائیں کے منظر دھندلا سا ہو گیا
صاف چمکیلے سے رستے، گرد سے یوں اٹ گئے
ہم کو دے سکتا نہیں دشمن کوئی بھی مات پر
آگ، پانی اور ہوا، سب آج مل کر ڈٹ گئے
کس طرح اشرف رہے، یہ بات سمجھاو مجھے
جوتیوں میں دال بانٹی، اور نسب میں بٹ گئے
زندگی یہ ہے مشقت، جبر سے طاری ہوئی
پھر فلک سے اس جہاں تک، کالے بادل چھٹ گئے
ایک گھر اظہر بنایا تھا بڑے ارمان سے
جو نشان تھے گم ہوئے، سب راستے سے ہٹ گئے
بلبلے تھے، جب بھی ٹکرائے کہیں تو پھٹ گئے
اب کہاں جائیں کے منظر دھندلا سا ہو گیا
صاف چمکیلے سے رستے، گرد سے یوں اٹ گئے
ہم کو دے سکتا نہیں دشمن کوئی بھی مات پر
آگ، پانی اور ہوا، سب آج مل کر ڈٹ گئے
کس طرح اشرف رہے، یہ بات سمجھاو مجھے
جوتیوں میں دال بانٹی، اور نسب میں بٹ گئے
زندگی یہ ہے مشقت، جبر سے طاری ہوئی
پھر فلک سے اس جہاں تک، کالے بادل چھٹ گئے
ایک گھر اظہر بنایا تھا بڑے ارمان سے
جو نشان تھے گم ہوئے، سب راستے سے ہٹ گئے