ایک غزل برائے اصلاح، '' راستے پر خار بھی تھے، جو سکوں سے کٹ گئے ''

راستے پر خار بھی تھے، جو سکوں سے کٹ گئے
بلبلے تھے، جب بھی ٹکرائے کہیں تو پھٹ گئے

اب کہاں جائیں کے منظر دھندلا سا ہو گیا
صاف چمکیلے سے رستے، گرد سے یوں اٹ گئے

ہم کو دے سکتا نہیں دشمن کوئی بھی مات پر
آگ، پانی اور ہوا، سب آج مل کر ڈٹ گئے

کس طرح اشرف رہے، یہ بات سمجھاو مجھے
جوتیوں میں دال بانٹی، اور نسب میں بٹ گئے

زندگی یہ ہے مشقت، جبر سے طاری ہوئی
پھر فلک سے اس جہاں تک، کالے بادل چھٹ گئے

ایک گھر اظہر بنایا تھا بڑے ارمان سے
جو نشان تھے گم ہوئے، سب راستے سے ہٹ گئے
 

الف عین

لائبریرین
راستے پر خار بھی تھے، جو سکوں سے کٹ گئے
بلبلے تھے، جب بھی ٹکرائے کہیں تو پھٹ گئے
// شعر واضح نہیں۔ ’سکوں‘ سے کوئی چیز کیسے کٹ سکتی ہے۔ کیا مراد ہے آسانی سے؟

اب کہاں جائیں کے منظر دھندلا سا ہو گیا
صاف چمکیلے سے رستے، گرد سے یوں اٹ گئے
//’دھندلا‘ میں نون غنہ ہے۔ معلنہ نہیں۔ یعنی محض ’دھدلا‘ وزن میں آتا ہے۔ اس کو یوں کہو
اب کہاں جائیں کہ منظر سارا دھندلا ہو گیا

ہم کو دے سکتا نہیں دشمن کوئی بھی مات پر
آگ، پانی اور ہوا، سب آج مل کر ڈٹ گئے
// اس میں دو اغلاط ہیں جس سے شعر واضح نہیں ہو پاتا۔ ایک تو پہلے مصرع میں ’پر‘ جو شاید بمعنی ’لیکن‘ استعمال ہوا ہے۔ اور دوسرے مصرع میں ’خلاف‘ لفظ کی غیر موجودگی کھلَتی ہے۔ یوں کہا جا سجتا ہے
کیا عدو کوئی ہمیں یوں مات دیتا، لیکن آج
آگ پانی آج مل کر دشمنی میں ڈٹ گئے

کس طرح اشرف رہے، یہ بات سمجھاو مجھے
جوتیوں میں دال بانٹی، اور نسب میں بٹ گئے
//درست

زندگی یہ ہے مشقت، جبر سے طاری ہوئی
پھر فلک سے اس جہاں تک، کالے بادل چھٹ گئے
//یہ شعر بھی میری سمجھ میں نہیں آیا۔

ایک گھر اظہر بنایا تھا بڑے ارمان سے
جو نشان تھے گم ہوئے، سب راستے سے ہٹ گئے
//پہلا مصرع تو درست ہے، لیکن دوسرے سے تعلق؟
جو نشان تھے گم ہوئے، سب راستے سے ہٹ گئے
میں ’نشاں‘ وزن میں آتا ہے، لیکن ’سب‘ سے مراد کون؟
 
راستے پر خار بھی تھے، آشتی میں کٹ گئے
بلبلے تھے، جب بھی ٹکرائے کہیں تو پھٹ گئے

اب کہاں جائیں کہ منظر سارا دھندلا ہو گیا
صاف چمکیلے سے رستے، گرد سے یوں اٹ گئے

کوئی دشمن مات ہم کو کیسے دیتا دیکھتے
آگ پانی آج مل کر دشمنی میں ڈٹ گئے

کس طرح اشرف رہے، یہ بات سمجھاو مجھے
جوتیوں میں دال بانٹی، اور نسب میں بٹ گئے

جب تلک تو زندگی تھی، بادلوں نے ڈھک لیا
پھر فلک کے راستے سے، کالے بادل چھٹ گئے

ایک گھر اظہر بنایا تھا بڑے ارمان سے
کچھ نشاں تھے بھول کر ہم راستے سے ہٹ گئے​
 

الف عین

لائبریرین
پہلے، پانچویں اور چھٹے شعر میں تم نے کوئی وضاحت نہیں کی، محض بدل دیا ہے۔ باقی اشعار درست ہیں۔
 
راستے پر خار بھی تھے، آشتی میں کٹ گئے
بلبلے تھے، جب بھی ٹکرائے کہیں تو پھٹ گئے

کہنا یہ ہے جناب کہ ، راستوں میں بے شمار کانٹے تھے مگر اُس کے باوجود کیونکہ زندگی تھی اس لئے امن اور آشتی، سکون سے راستے کٹتے رہے، مگر جب ٹکرائے تو ایسے ہی پھٹے جیسے بلبلہ پھٹ جاتا ہے


جب تلک تو زندگی تھی، بادلوں نے ڈھک لیا
پھر فلک کے راستے سے، کالے بادل چھٹ گئے

زندگی جب تک باقی تھی ، اسی زمین پر رہے اور سر پہ سایہ رہا بادلوں کی چھاوں کا، پر جب موت آئی تو آسمان کے راستے سے ساری رکاوٹیں ہٹ گئیں


ایک گھر اظہر بنایا تھا بڑے ارمان سے
کچھ نشاں تھے بھول کر ہم راستے سے ہٹ گئے

ایک گھر بنا بھی لیا تھا، لیکن موت نے راستے کے سبھی نشان مٹا ڈالے اور گھر کے راستے سے ہٹ گئے



اگر چاہیں تو تبدیل کیے دیتا ہوں محترم اُستاد
 

الف عین

لائبریرین
میرے علاوہ کسی اور سخن فہم سے پوچھو کہ کیا یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے جو تم نے نکالا ہے؟ میں اب بھی مطمئن نہیں ہوں۔
مطلع۔۔ کون ٹکرائے؟ کہاں ٹکرائے، سوالات کا جواب موجود نہیں۔
دوسرا شعر۔۔۔ ایک طرف بادلوں کی چھاؤں کو تم خوش آئند قرار دے رہے ہو، کتنا اچھا تھا کہ بادلوں کی چھاؤں تھی، لیکن دوسری طرف انہیں بادلوں کو رکاوٹیں کہا جا رہا ہے۔ کیسی رکاوٹ، اس کا کوئی ذکر نہیں۔
تیسرا شعر۔۔۔ نشانات مٹ جانے کا کہیں تذکرہ نہیں۔
ایک بات اب سمجھ میں آئی ہے، وہ بھی تمہاری وضاحتوں کے بعد۔ کہ یہ غزل نہیں نظم ہے (یا غزل مسلسل) جس میں زندگی کی ناژباتی کا بیان کیا گیا ہے، اور موت کے بعد سب دکھ درد بھی ، اور مسرتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں (شاید)
بھئی اظہر، یہ سمجھ لو کہ زیادہ تر قاری مجھ جیسے کم عقل ہی ہوتے ہیں اس لئے ان کو سمجھانے کے لئے کچھ اشارے ضرور دینا چاہئے۔ یہ زندگی اور موت کے بارے میں اس بار وضاحت سے معلوم ہوا (بلکہ اندازہ لگا!!)
 
راستے پر خار بھی تھے، بچ بچا کے کٹ گئے
بلبلے تھے، وقت آیا ، پھانس بن بھی پھٹ گئے

اب کہاں جائیں کہ منظر سارا دھندلا ہو گیا
صاف چمکیلے سے رستے، گرد سے یوں اٹ گئے

کوئی دشمن مات ہم کو کیسے دیتا دیکھتے
آگ پانی آج مل کر دشمنی میں ڈٹ گئے

کس طرح اشرف رہے، یہ بات سمجھاو مجھے
جوتیوں میں دال بانٹی، اور نسب میں بٹ گئے

مشکلوں کی اک گھڑی نے بھید سارے وا کئے
دوستی اور دشمنی ظاہر ہوئی، سب چھٹ گئے

برف پر تو نے بنائے سب نشاں اظہر کہو
اب پشیمانی سے حاصل؟ راستے سے ہٹ گئے​
 
Top