بلال بھائی! آپ کی غزل پر ( خود بطورِ مبتدی) نظر ثانی کی ہے ، ملاحظہ فرمائیے
دائرے سے ذرا نکل کے دیکھ
چلنے والے کبھی سنبھل کے دیکھ
دوستی کا میں دم بھروں گا تری
تو رویہ کبھی بدل کے دیکھ
یہ بھی ہے زندگی کا اِک حصہ
ڈھلتی کرنوں میں آج ڈھل کے دیکھ
بے کیے کچھ، ثمر نہیں ملتا
دِل سے کہہ تو ذرا، سنبھل کے دیکھ
بے مروت ہے وہ مگر تو بھی
خول سے اپنے اب نکل کے دیکھ
گو یہ بھی تُک بندی ہی ہے ، مگر ہم مبتدیوں کو یہ بھی کافی ہے۔اساتذہ کا انتظار کرلیتے ہیں۔ ویسے میرا مشورہ وہی ہے جو استادِ محترم کا ہے ، یعنی یہ کہ آپ شاعری کو پڑھیے، وزن سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ قافیہ اور ردیف تک تو آپ پہنچ گئے۔ چھوٹی بحروں اور آسان الفاظ والی غزلوں سے اجتناب کیجیے کہ یہ ظالم سہلِ ممتنع کی آڑ میں ایسے ایسے اشعار کہہ جاتے ہیں جو انھی کو زیبا ہیں ۔ ہم اسے بطورِ نثر پڑھ ڈالیں گے اور گمراہ ہوں گے۔( میر، ناصر کاظمی وغیرہ سے اجتناب بہتر رہےگا)۔ جزاک اللہ الخیر