ایک غزل برائے اِصلاح پیش ہے

شہنواز نور

محفلین
غزل
خدا کا شکر ہے ہر شخص کو پہچان لیتے ہیں
لفافہ دیکھ کر مضمون کیا ہے جان لیتے ہیں
بظاہر تو کبھی روتے ہوئے دیکھا نہیں تم کو
محبت تم بھی کرتے ہو چلو ہم مان لیتے ہیں
یہ بازار محبت ہے یہاں غم خوب ملتا ہے
چلو دل دے کے ہم یہ قیمتی سامان لیتے ہیں
محبت کا یہ کاروبار ہم سے اب نہیں ہوتا
کبھی جو دل لیا کرتے تھے اب وہ جان لیتے ہیں
گماں ہوتا ہے جب سایہ نہیں سر پہ کوئی اپنے
خدا کے نام کی ہم لوگ چادر تان لیتے ہیں
کہیں بھوکے فقیروں کا بھی ہوتا ہے کوئی فرقہ
جو ہم سے بھیک لیتے ہیں وہ تم سے دان لیتے ہیں
عقیدت خوب ہے ان کی تلاوت کر نہیں سکتے
قسم کھاتے ہیں جب تو ہاتھ میں قرآن لیتے ہیں بہت مصروف رہتے ہیں ہم اپنی فاقہ مستی میں
حکومت سے ملی خیرات کب سلطان لیتے ہیں
وفا کی ہم کوئی امید انساں سے نہیں کرتے
جہاں میں نور بس اللّہ کا احسان لیتے ہیں
شہواز نور
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
غزل
خدا کا شکر ہے ہر شخص کو پہچان لیتے ہیں
لفافہ دیکھ کر مضمون کیا ہے جان لیتے ہیں
۔۔۔ دوسرا مصرع،اگر بہتر کرسکیں تو اچھا ہو۔۔۔
بظاہر تو کبھی روتے ہوئے دیکھا نہیں تم کو
محبت تم بھی کرتے ہو چلو ہم مان لیتے ہیں
۔۔۔محبت کرنے والے روتے بلکتے ہی رہتے ہیں؟ پہلے مصرعے پر نظر ثانی کی درخواست ۔۔
یہ بازار محبت ہے یہاں غم خوب ملتا ہے
چلو دل دے کے ہم یہ قیمتی سامان لیتے ہیں
۔۔۔جب دل ہی نہ رہا تو غم کہاں رکھیں گے؟ ۔۔۔ ویسے بھی قیمتی سامان لینے والی بات کسی قدر کچی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ (صوتی اعتبار سے)
محبت کا یہ کاروبار ہم سے اب نہیں ہوتا
کبھی جو دل لیا کرتے تھے اب وہ جان لیتے ہیں
۔۔۔۔سادگی بڑھ گئی ۔۔۔ لطف نہ آیا۔۔۔
گماں ہوتا ہے جب سایہ نہیں سر پہ کوئی اپنے
خدا کے نام کی ہم لوگ چادر تان لیتے ہیں
۔۔۔خدا کا تصور ہی کافی ہے۔۔۔ خیر چادر تاننے میں بھی کوئی برائی نہیں، لیکن سائے کے لیے؟ کچھ سمجھے نہیں ہم ۔۔۔ معذرت۔۔۔
کہیں بھوکے فقیروں کا بھی ہوتا ہے کوئی فرقہ
جو ہم سے بھیک لیتے ہیں وہ تم سے دان لیتے ہیں
۔۔۔ کمزور ۔۔۔ایک تو دان لینا، مکمل ہندی لگی جس پر اعتراض ہوگا، ۔دوم بیان کمزور ہے، دلیل کیا ہے، سمجھائی نہ جاسکی۔۔۔
عقیدت خوب ہے ان کی تلاوت کر نہیں سکتے
قسم کھاتے ہیں جب تو ہاتھ میں قرآن لیتے ہیں
۔۔۔کمزور ۔۔۔ ویسے بھی یہ خالص دینی تنقید ہے جو غزل کو کم ہی راس آتی ہے۔۔۔ یا تو پوری ہی غزل ایسے ہی اشعار کی ہوتی۔۔
بہت مصروف رہتے ہیں ہم اپنی فاقہ مستی میں
حکومت سے ملی خیرات کب سلطان لیتے ہیں
۔۔۔کمزور۔۔
وفا کی ہم کوئی امید انساں سے نہیں کرتے
جہاں میں نور بس اللّہ کا احسان لیتے ہیں
۔۔۔درست۔۔۔اگرچہ زیادہ جاندار نہیں
شہواز نور
 

شہنواز نور

محفلین
آپ کی اس رہنمائ کیلئے دلی شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ نے جن پہلوؤں کی جانب اشارہ کیا ہے ان پر پھر سے نظر ثانی کرتا ہوں ۔۔
 

فاخر رضا

محفلین
غزل
خدا کا شکر ہے ہر شخص کو پہچان لیتے ہیں
لفافہ دیکھ کر مضمون کیا ہے جان لیتے ہیں
بظاہر تو کبھی روتے ہوئے دیکھا نہیں تم کو
محبت تم بھی کرتے ہو چلو ہم مان لیتے ہیں
یہ بازار محبت ہے یہاں غم خوب ملتا ہے
چلو دل دے کے ہم یہ قیمتی سامان لیتے ہیں
محبت کا یہ کاروبار ہم سے اب نہیں ہوتا
کبھی جو دل لیا کرتے تھے اب وہ جان لیتے ہیں
گماں ہوتا ہے جب سایہ نہیں سر پہ کوئی اپنے
خدا کے نام کی ہم لوگ چادر تان لیتے ہیں
کہیں بھوکے فقیروں کا بھی ہوتا ہے کوئی فرقہ
جو ہم سے بھیک لیتے ہیں وہ تم سے دان لیتے ہیں
عقیدت خوب ہے ان کی تلاوت کر نہیں سکتے
قسم کھاتے ہیں جب تو ہاتھ میں قرآن لیتے ہیں بہت مصروف رہتے ہیں ہم اپنی فاقہ مستی میں
حکومت سے ملی خیرات کب سلطان لیتے ہیں
وفا کی ہم کوئی امید انساں سے نہیں کرتے
جہاں میں نور بس اللّہ کا احسان لیتے ہیں
شہواز نور
بہت خوب
ماشاءاللہ بھائی
بہت اچھا لکھتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
شاہد شاہنواز نے زیادہ ہی نکیلی نظر ڈالی ہے؟ مجھے تو اکثر اشعار قابل قبول لگے۔ بہتری کی گنجائش تو غالب کے اشعار میں بھی ہو سکتی ہے؟ مثلاً
محبت کا یہ کاروبار ہم سے اب نہیں ہوتا
کبھی جو دل لیا کرتے تھے اب وہ جان لیتے ہیں
کو اگر یوں کیا جائے
محبت کا یہ کاروبار اب ہم سے نہیں ہوگا
کبھی جو دل لیا کرتے تھے وہ اب جان لیتے ہیں

مجھے ایسا لگتا ہے کہ بھوکے فقیروں والے شعر میں شہنواز نور کا اشارہ ہندو یا مسلم فقیروں یا دینے والوں سے ہے، کہ ہندوستان میں ہی یہ مضمون لایا جا سکتا ہے۔ تو یہاں ’فرقہ‘ نہیں، ’مذپب‘ لانا بہتر ہو گا۔ مسلک اور فرقے کی بات لگتی یہاں۔
قرآن والاشعر واقعی اس غزل سے نکال دیں۔
 
Top