ایک غزل برائے تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کے،'' زندگی کچھ بھی نہیں ہاتھ میں زر ہونے تک''

زندگی کچھ بھی نہیں ہاتھ میں زر ہونے تک
قید رہنا ہی ہے دیوار میں در ہونے تک

لوٹنا بھول کے دیوار سے لگ بیٹھا ہوں
ہاتھ پھیلا ہے، دعاؤں میں اثر ہونے تک

ہو گیا جب تو یہ دیکھیں گے ہوا کیا کیا ہے
خوف انہونی کا رہتا ہے مگر ہونے تک

چار دیوار کی وقعت کا پتہ چل جائے
آسماں کے ہوں تلے میں بھی جو گھر ہونے تک

پُتلیاں آنکھ کی لگتا ہے کہ پتھرائیں گی
جان اظہر تیرا رستے سے گزر ہونے تک​
 
ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ
ﮔﮯ ﮨﻮﺍ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ
ﺧﻮﻑ ﺍﻧﮩﻮﻧﯽ ﮐﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﺗﮏ..
خوب ھے جناب داد قبول فرمائیے
 
چچا غالب کے مصرع پر میری ہرزہ سرائی

زندگی کچھ بھی نہیں ہاتھ میں زر ہونے تک
قید رہنا ہی ہے دیوار میں در ہونے تک

لوٹنا بھول کے دیوار سے لگ بیٹھا ہوں
ہاتھ پھیلا ہے، دعاؤں میں اثر ہونے تک

کیا ستم ہے کہ کرو واہ، اثر فوری ہو
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک


ہو گیا جب تو یہ دیکھیں گے ہوا کیا کیا ہے
خوف انہونی کا رہتا ہے مگر ہونے تک

چار دیوار کی وقعت کا پتہ چل جائے
آسماں کے ہوں تلے میں بھی جو گھر ہونے تک

پُتلیاں آنکھ کی لگتا ہے کہ پتھرائیں گی
جان اظہر تیرا رستے سے گزر ہونے تک​
 

الف عین

لائبریرین
اصلاح حاضر
زندگی کچھ بھی نہیں ہاتھ میں زر ہونے تک
قید رہنا ہی ہے دیوار میں در ہونے تک
/درست

لوٹنا بھول کے دیوار سے لگ بیٹھا ہوں
ہاتھ پھیلا ہے، دعاؤں میں اثر ہونے تک
//خوب۔ درست

کیا ستم ہے کہ کرو واہ، اثر فوری ہو
آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک
//پہلا مصرع شاید اس طرح واضح تر ہو۔۔
جب کرو واہ تو ہوتا ہے اثر جلد، مگر

ہو گیا جب تو یہ دیکھیں گے ہوا کیا کیا ہے
خوف انہونی کا رہتا ہے مگر ہونے تک
//’انہونی‘ کا تلفظ ’انونی‘ کی طرح تقطیع ہوتا ہے۔ ان۔ ہونی‘ نہیں
یوں کیں تو
ہو گیا جب تو یہ دیکھیں گے ہوا ہے کیا کچھ
خوف ان دیکھے کا رہتا ہے مگر ہونے تک

چار دیوار کی وقعت کا پتہ چل جائے
آسماں کے ہوں تلے میں بھی جو گھر ہونے تک
//دوسرا مصرع رواں نہیں

پُتلیاں آنکھ کی لگتا ہے کہ پتھرائیں گی
جان اظہر تیرا رستے سے گزر ہونے تک
/پتلیاں تو نہیں۔ آنکھیں پتھرا جانے کا محاورہ ہے۔
آنکھیں شاید مری پتھرا تی چلی جائیں گی
یا اس قسم کا کچھ اور، (محض مثال کے لئے پتھرانے چلے جانے کا محاورہ استعمال کیا ہے مورنی درست یہ بھی نہیں)
 
Top