محمد اظہر نذیر
محفلین
کچھ وہ کہتا ہے، سُنائی نہیں دیتا مجھ میں
کون ہے شخص، دکھائی نہیں دیتا مجھ میں
طے کیا زانوئے تلمیذ طویل عرصے تک
میرا اُستاد سُجھائی نہیں دیتا مجھ میں
وحشت یاد کروں کیسے تُجھے میں قابو
کوئی وحشی ہے، رسائی نہیں دیتا مجھ میں
روند کر خود کو ہوا ہے یہ تمنا کا حصول
دل تُجھے کیا ہے، بدھائی نہیں دیتا مجھ میں
میں تصور میں ترے ایسے گھرا رہتا ہوں
اور مجھے کچھ بھی سُجھائی نہیں دیتا مجھ میں
دیکھتا روز ہوں تذلیل بنی آدم کی
کوئی انسان دہائی نہیں دیتا مجھ میں
کھوجنا خود کو ہے اظہر پہ مگر کوئی ہے
جو مجھے آبلہ پائی نہیں دیتا مجھ میں
کون ہے شخص، دکھائی نہیں دیتا مجھ میں
طے کیا زانوئے تلمیذ طویل عرصے تک
میرا اُستاد سُجھائی نہیں دیتا مجھ میں
وحشت یاد کروں کیسے تُجھے میں قابو
کوئی وحشی ہے، رسائی نہیں دیتا مجھ میں
روند کر خود کو ہوا ہے یہ تمنا کا حصول
دل تُجھے کیا ہے، بدھائی نہیں دیتا مجھ میں
میں تصور میں ترے ایسے گھرا رہتا ہوں
اور مجھے کچھ بھی سُجھائی نہیں دیتا مجھ میں
دیکھتا روز ہوں تذلیل بنی آدم کی
کوئی انسان دہائی نہیں دیتا مجھ میں
کھوجنا خود کو ہے اظہر پہ مگر کوئی ہے
جو مجھے آبلہ پائی نہیں دیتا مجھ میں