محمد اظہر نذیر
محفلین
آہ بندش میں ہو، پابند ہوں نالے، کب تک
درد، بے درد ہے، سینے میں تُو بالے کب تک
روشنی اور ہوا روک نہ پایا کوئی
روک پایا بھی تو روکوں گا اُجالے کب تک
درد رُخصت ہوا کب کا ترا رستہ چلتے
ساتھ دیتے ہیں مرا پاؤں کے چھالے کب تک
چشم جمہور میں طوفان ہے برپا جیسے
دیکھنا ہے تو یہ بس، ہونٹوں پہ تالے کب تک
سال خوردہ ہیں ترے خط، انہیں لے جا آ کر
کوئی آخر یہ امانت بھی سنبھالے کب تک
اپنی مرضی سے ہو اک بار رواں نرم وجود
خود کو تیری ہی وہ خواہش پہ بھی ڈھالے کب تک
خامشی سے تُو ذرا دیکھ تو آخر اظہر
بھول پاتے ہیں تُجھے بھولنے والے کب تک
درد، بے درد ہے، سینے میں تُو بالے کب تک
روشنی اور ہوا روک نہ پایا کوئی
روک پایا بھی تو روکوں گا اُجالے کب تک
درد رُخصت ہوا کب کا ترا رستہ چلتے
ساتھ دیتے ہیں مرا پاؤں کے چھالے کب تک
چشم جمہور میں طوفان ہے برپا جیسے
دیکھنا ہے تو یہ بس، ہونٹوں پہ تالے کب تک
سال خوردہ ہیں ترے خط، انہیں لے جا آ کر
کوئی آخر یہ امانت بھی سنبھالے کب تک
اپنی مرضی سے ہو اک بار رواں نرم وجود
خود کو تیری ہی وہ خواہش پہ بھی ڈھالے کب تک
خامشی سے تُو ذرا دیکھ تو آخر اظہر
بھول پاتے ہیں تُجھے بھولنے والے کب تک