محمد اظہر نذیر
محفلین
رنگ بھرتا ہوں میں تصویر نہیں بن پاتی
کیوں دعاوں سے بھی تقدیر نہیں بن پاتی
خواب دیکھوں تو بھی خوابوں میں وہی کیوں آئے
اور جو آتی ہے وہ تعبیر نہیں بن پاتی
اُس سے ملنا ہو قیامت کی مشقت جھیلوں
کیا مصیبت ہے کہ تدبیر نہیں بن پاتی
روز لکھتا ہوں مٹا دیتا ہوں لکھتے لکھتے
دل کو چھو لے جو وہ تحریر نہیں بن پاتی
تجھ کو روکوں پہ بہانے ہی نہیں مل پاتے
یا بہانوں میں وہ تاثیر نہیں بن پاتی
دیکھ اظہر وہ بھی کرتے ہیں سبھی کچھ جگ میں
جو ملی تجھ کو وہ توقیر نہیں بن پاتی