محمد اظہر نذیر
محفلین
ہونٹوں سے دور جاتی، صدا ہو گیا تو کیا
چپکے سے ایک دن میں ہوا ہو گیا تو کیا
تُم سے نہیں ہے کوئی تعلق نہ واسطہ
راضی میں ہوں نہیں ہوں ، خفا ہو گیا تو کیا
دارالشفا کو جانے، وہ جانے طبیب کو
اب اُس کے درد کی میں دوا ہو گیا تو کیا
چسکے زبان کے جو تعقب میں آ گئے
پھر عمر بھر کہا وہ سزا ہو گیا تو کیا
بھولے سے بھی بُری نہ کبھی بات تُم کرو
پورا جو غیب سے وہ کہا ہو گیا تو کیا
بگڑے گا اُس کا کچھ بھی نہیں پھر بھی بیر ہے
اظہر غریب کا جو بھلا ہو گیا تو کیا