محمد اظہر نذیر
محفلین
اک پھول میرے پاس تھا، مرجھا گیا ہے ابپر بے قرار زیست، مفر پا گیا ہے اب
آیا ہے اب جو وہ، تو میں آئے کو کیا کروں
جب وقت ہی رہا نہ تو کیا آ گیا ہے اب
تھا بے قرار کب سے دل ناتوں مرا
دھڑکوں گا اب نہیں، وہ یہ فرما گیا ہے اب
اب ڈھونڈ کیا رہے ہو کہ باقی نہیں ہے کچھ
جو پاس رہ گیا تھا، وہ غم کھا گیا ہے اب
اندھا سفر ہو دھوپ میں، سایہ تو شرط ہو
کوئی تو ہو کہے جو کہ پیڑ آ گیا ہے اب
پہلے تو احتمال تھا، غلطی کا کچھ نہ کچھ
اُس نے کہی جو بات تھی، دہرا گیا ہے اب
ترک تعلقات کا لہجے میں تھا یقیں
پھر لوٹنا نہیں ہے، وہ ایسا گیا ہے اب
حیراں ہوں اُس کی پیاس پہ اظہر یہ کیا ہوا
خود پاس آ بجھائی ہے، دریا گیا ہے اب