بہت خوب اظہر
سب بلائیں ٹال سکتی ہیں دعائیں، کر دعا
کیا ہے مشکل، ہاتھ پھیلا، دے صدائیں، کر دعا
÷÷دوسرے مصرع میں ’کیا ہے مشکل‘ ذرا Odd لگ رہا ہے، اس کی جگہ
کھول دامن، ہاتھ پھیلا۔۔۔ کر دیں تو کیسا رہے گا؟
چاند سورج راستے میں کچھ نہیں آتا ہے پھر
چیر دیتی ہیں فلک تک کہکشائیں، کر دعا
÷÷کیا کہنا چاہ رہے ہو؟ دعائیں فلک چیر دیتی ہیں، یا محض کہکشائیں۔
پہلا مصرع مزید رواں ہو سکتا ہے، فعل واحد کو جمع کے صیغے میں بدلنے کے بعد، جیسے
چاند سورج بھی نہ حائل ہو سکیں گے راہ میں
رکھ یقیں اللہ پر محکم، مخالف چل رہی
تیری جانب موڑ دے گا سب ہوائیں، کر دعا
÷÷یہاں یہ معنوی غلطی ہے کہ مخالف ہواؤں کو تمہاری جانب موڑنے کا مطلب ہے کہ تم کو مخالف ہواؤں کی زد میں لے آئے گا!! حالانکہ شاید کہنا چاہ رہے ہو کہ مخالف بھی تمہارے لئے موافق ہو جائیں گی۔ اس لحاظ سے شعر کو بدل دو۔
اُس کے آگے معرفت نفسی یہ کیا ہے بیچتی
اک طرف تو طاق میں رکھ دے انائیں، کر دعا
÷÷ معرفت نفسی کیا ترکیب ہے؟ کیا بیچنا بھی فصیح محاورہ نہیں، اس کو بھی بدلا جائے۔
یہ شعر بھی چستی و روانی طلب ہے۔ دوسرا مصرع تو یوں کر دو۔
طاق میں اک سمت رکھ دے سب انائیں
گڑگڑا ، دامن تو پھیلا، کر یقیں اُس ذات کا
وہ جزاوں میں بدل دے گا سزائیں، کر دعا
÷÷محض جزا سے مراد جزائے خیر نہیں، جزائے شر بھی ہو سکتی ہے نا۔ تم تو عربی سے واقف ہی ہو گے۔ یہاں انعام وغیرہ کیا جا سکتا ہے۔ ’کر یقیں اس ذات کا‘ کا فقرہ بھی موضوع سے الگ ہے۔ شعر کی اس طرح ترمیم کرو۔
تُو بھی رہ کر منتظر، شان کریمی دیکھنا
بخشتا ہے کس طرح اظہر ،خطائیں، کر دعا
یہ اگر یوں ہو تو
دیکھ لے شان کریمی، صبر سے کر انتطار