ایک غزل تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کیلئے،'' اے صنم، تُو خُدا نہ بن جانا''

اے صنم، تُو خدا نہ بن جانا
ایک ہے، دوسرا نہ بن جانا

اب تو عادت سی ہو گئی تیری
درد رہنا، دوا نہ بن جانا

مجھ کو چلنا ہے اپنے رستے پر
راہ میں التجا نہ بن جانا

زندگی کے کئی مقاصد ہیں
صرف تُو مدعا نہ بن جانا

چھوئے رُخسار وہ رقابت میں
کوئی باد صبا نہ بن جانا

آشنائی کے زخم ہیں اظہر
تُو بھی اب آشنا نہ بن جانا​
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ، خوب کہی ہے
مجھے بس ایک شعر پر کچھ کہنا پڑ رہا ہے
چھوئے رُخسار وہ رقابت میں
کا چھوئے ناگوار محسوس ہو رہا ہے، ’چھونا‘ میں تو واؤ کے ساتھ ہجائے طویل درست لگتا ہے۔ لیکن چھوئے‘ میں نہیں، اور وہ بھی جب محض ’چھوء‘ تقطیع ہو رہا ہو۔ مصرع بدل دو تو بہتر ہے
 
ماشاء اللہ، خوب کہی ہے
مجھے بس ایک شعر پر کچھ کہنا پڑ رہا ہے
چھوئے رُخسار وہ رقابت میں
کا چھوئے ناگوار محسوس ہو رہا ہے، ’چھونا‘ میں تو واؤ کے ساتھ ہجائے طویل درست لگتا ہے۔ لیکن چھوئے‘ میں نہیں، اور وہ بھی جب محض ’چھوء‘ تقطیع ہو رہا ہو۔ مصرع بدل دو تو بہتر ہے
بجا فرمایا اُستاد محترم، یوں کہا جائے تو قابل قبول ہے کیا؟
اُس کا چھونا نہیں ہے عیب مگر
اور کوئی صبا نہ بن جانا
اور از راہ کرم ایک شعر لکھنا بھول گیا تھا وہ بھی دیکھ لیجئے
گوندھ، اپنی مری ملا مٹی
عشق باہم، جُدا نہ بن جانا

گویا اب صورتحال کچھ یوں ہوئی

اے صنم، تُو خدا نہ بن جانا
ایک ہے، دوسرا نہ بن جانا

اب تو عادت سی ہو گئی تیری
درد رہنا، دوا نہ بن جانا

مجھ کو چلنا ہے اپنے رستے پر
راہ میں التجا نہ بن جانا

زندگی کے کئی مقاصد ہیں
صرف تُو مدعا نہ بن جانا

اُس کا چھونا نہیں ہے عیب مگر
اور کوئی صبا نہ بن جانا

گوندھ، اپنی مری ملا مٹی
عشق باہم، جُدا نہ بن جانا


آشنائی کے زخم ہیں اظہر
تُو بھی اب آشنا نہ بن جانا​
 
آخری تدوین:
نہیں میاں، ان دونوں اشعار میں بات مکمل نہیں ہو رہی۔ عجز بیان کا شکار ہیں
جی معزرت چاہتا ہوں مجھے بھی لگ رہا تھا، دونوں اشعار یوں کہے جائیں تو

وہ تو رُخسار سے لپٹتی ہے
کوئی باد صبا نہ بن جانا

بول، کُمہار گوندھ دے باہم
اب تُو مجھ سے جُدا نہ بن جانا


گویا اب کچھ ایسا ہے کہ

اے صنم، تُو خدا نہ بن جانا
ایک ہے، دوسرا نہ بن جانا

اب تو عادت سی ہو گئی تیری
درد رہنا، دوا نہ بن جانا

مجھ کو چلنا ہے اپنے رستے پر
راہ میں التجا نہ بن جانا

زندگی کے کئی مقاصد ہیں
صرف تُو مدعا نہ بن جانا

وہ تو رُخسار سے لپٹتی ہے
کوئی باد صبا نہ بن جانا

بول، کُمہار گوندھ دے باہم
اب تُو مجھ سے جُدا نہ بن جانا


آشنائی کے زخم ہیں اظہر
تُو بھی اب آشنا نہ بن جانا​
 

الف عین

لائبریرین
اس ’کُم ہار‘ کو تو اپنی مٹی گوندھنے دو، یہ شعر نکال دو، کیا ضروری ہے۔ باد صبا والا یوں بہتر ہو گا میرے ناقص خیال میں
وہ جو رخسار سے لپٹ جائے
ایسی باد صبا ۔۔۔۔
 
اس ’کُم ہار‘ کو تو اپنی مٹی گوندھنے دو، یہ شعر نکال دو، کیا ضروری ہے۔ باد صبا والا یوں بہتر ہو گا میرے ناقص خیال میں
وہ جو رخسار سے لپٹ جائے
ایسی باد صبا ۔۔۔
جی بہت بہتر ہے اُستاد محترم، کچھ نئے اشعار ہوئے ہیں پُرانے حزف کر رہا ہوں ، دیکھئے تو ذرا

اے صنم، تُو خدا نہ بن جانا
ایک ہے، دوسرا نہ بن جانا

اب تو عادت سی ہو گئی تیری
درد رہنا، دوا نہ بن جانا

مجھ کو چلنا ہے اپنے رستے پر
راہ میں التجا نہ بن جانا

زندگی کے کئی مقاصد ہیں
صرف تُو مدعا نہ بن جانا

دشمنوں سے تُو دوست ملتا ہے
اُن کے بس استوا نہ بن جانا

دینے والا ہو ہاتھ، بہتر ہے
ہاتھ پھیلے، گدا نہ بن جانا

لفظ اپنا بھرم ہی کھو دیں گے
رہزنو، رہنما نہ بن جانا

دل کو دو، دے سکو قرار جاں
آرزو سے سزا نہ بن جانا


آشنائی کے زخم ہیں اظہر
تُو بھی اب آشنا نہ بن جانا
 

الف عین

لائبریرین
نئے اشعار میں پہلے دونوں پسند نہیں آئے۔ اگلے دونوں اشعار ٹھیک ہیں:
لفظ اپنا بھرم ہی کھو دیں گے
رہزنو، رہنما نہ بن جانا
÷خوب، درست

دل کو دو، دے سکو قرار جاں
آرزو سے سزا نہ بن جانا
÷÷÷بس پہلا مصرع روانی کی خاطر ایسا کیا جائے تو
دے سکو گر تو دے دو دل (یا جاں) کا سکون (یا قرار)
 
Top