ایک غزل تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کیلئے، '' میں نہیں ایسا تھا، جیسا بن گیا ''


میں نہیں ایسا تھا جیسا ہو گیا
پر جو گُزری کیا کہوں کیا ہو گیا

اُس نے چابی تو بنائی تھی ہوا
آشیاں سے پھر بھی جھونکا ہو گیا

میں بھی خود اعلان کر دیتا مگر
پھیل کر خوشبو کا چرچا ہو گیا

زندگی، اپنے پرائے ہو گئے
اور پرایا ایک اپنا ہو گیا

اُس کو کہہ دینے کا مطلب جان لو
کام مشکل بھی ہو گویا ہو گیا

بھر گئی تھی، پھوٹنا ہانڈی نے تھا
راز دل اظہر جو افشا ہو گیا​
 
Top