ایک غزل تنقید، تبصرہ اور رہنمائی کی غرض سے،'' وہ نہیں ہے تو میں کیوں چھوڑ دوں پینا آخر''

وہ نہیں ہے تو میں کیوں چھوڑ دوں پینا آخر
اس سے کچھ تیز نہ چل پائے گی اب کیا آخر

میری فطرت میں محبت ہے، محبت ہو گی
آدمی نے تو پیا دودھ ہے کچا آخر

ہم تو اتنی سی عنایت پہ ہیں ممنون بہت
کچھ نہ ہو اور مگر اُس نے ہے سوچا آخر

مرتبہ دے تو دیا قوم نہ دیکھی ہم نے
بس وہ اپنی ہی اصالت پہ گیا تھا آخر

ٹوٹ جائے گا کہ شدت سے یہ ہو گا قائم
اور چارہ نہیں ، کرنا ہے بھروسہ آخر

بول تو کھول کہ لب چاک چلانے والے
کیا مکمل ہے اگر میں ہوں ادھورا آخر

اس قدر کہہ تو دیا اُس نے ، چلا جا اظہر
اس کے قُربان ہوا مجھ سے وہ گویا آخر​
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے لیکن مجھے کچھ ہلکی محسوس ہوئی۔
مطلع دو لخت محسوس ہوتا ہے۔
یہ شعر واضح نہیں ہوا۔
بول تو کھول کہ لب چاک چلانے والے
کیا مکمل ہے اگر میں ہوں ادھورا آخر
 
اچھی غزل ہے لیکن مجھے کچھ ہلکی محسوس ہوئی۔
مطلع دو لخت محسوس ہوتا ہے۔
یہ شعر واضح نہیں ہوا۔
بول تو کھول کہ لب چاک چلانے والے
کیا مکمل ہے اگر میں ہوں ادھورا آخر
اُستاد محترم کچھ تبدیلیاں کی ہیں


وہ نہیں ہے تو میں کیوں چھوڑ دوں پینا آخر
بے خودی میں ہی تو کاٹوں گا یہ رستہ آخر

میری فطرت میں محبت ہے، محبت ہو گی
آدمی نے تو پیا دودھ ہے کچا آخر

آج اُترا وہ مری بات کی گہرائی میں
چل سہولت سے مجھے اُس نے بھی سوچا آخر


مرتبہ دے تو دیا، نسل نہ دیکھی ہم نے
بس وہ اپنی ہی اصالت پہ گیا تھا آخر

اختیار اس میں تری صفت کا کوئی بھی نہیں
میں تھا لاچار، تو کرنا تھا بھروسہ آخر


کیا مکمل ہے بتا چاک چلانے والے
میرے نزدیک، اگر میں ہوں ادھورا آخر

اس قدر کہہ تو دیا اُس نے ، چلا جا اظہر
اس بہانے سے ہوا مجھ سے وہ گویا آخر
 
اب بہتر ہے لیکن صفت بسکون فا باندھا گیا ہے۔ صفت میں ’ف‘ مفتوح ہوتی ہے۔
اوہو معذرت جناب، یوں دیکھ لیجئے


وہ نہیں ہے تو میں کیوں چھوڑ دوں پینا آخر
بے خودی میں ہی تو کاٹوں گا یہ رستہ آخر

میری فطرت میں محبت ہے، محبت ہو گی
آدمی نے تو پیا دودھ ہے کچا آخر

آج اُترا وہ مری بات کی گہرائی میں
چل سہولت سے مجھے اُس نے بھی سوچا آخر

مرتبہ دے تو دیا، نسل نہ دیکھی ہم نے
بس وہ اپنی ہی اصالت پہ گیا تھا آخر

اختیار اس میں نہیں کوئی صفت کا تیری
میں تھا لاچار، تو کرنا تھا بھروسہ آخر

کیا مکمل ہے بتا چاک چلانے والے
میرے نزدیک، اگر میں ہوں ادھورا آخر

اس قدر کہہ تو دیا اُس نے ، چلا جا اظہر
اس بہانے سے ہوا مجھ سے وہ گویا آخر​
 
Top