اب تو سپنا بُن بیٹھا ہوں
اُس کو ساتھی چُن بیٹھا ہوں
÷÷اب تو سے بات واضح نہیں ہوتی
پھر سے سپنا بُن۔۔۔ کر دو
اُستاد محترم اگر پھر سے کہا تو سوال اُٹھتا ہے کہ کیا پہلے بھی کہا تھا ، اگر یارو ہی استعمال ہو تو زیادہ بہتر نہ ہو گا کیا؟
نسبت اُس کو موسیقی سے
چھیڑے میں بھی دھُن بیٹھا ہوں
÷÷اس میں روانی نہیں،
اس کو ہے سنگیت سے نسبت
میں بھی چھیڑے
لیکن نسبت کی جگہ کچھ اور نہیں ہو سکتا؟
یوں دیکھ لیجئے جناب
اس کو ہے سنگیت سے رغبت
اُٹھ جاؤں گا، مل جائے وہ
دل میں لے کر دھُن، بیٹھا ہوں
÷÷بس وہ مل جائے، اٹھ جاؤں
کیسا رہے گا؟
اگر یوں ہو تو جناب؟
اُس سے مل کر اُٹھ جاؤں گا
چاہوں اتنا پھر سے کہ دے
ساری باتیں سُن بیٹھا ہوں
۔۔کہہ دے، کو کہ دے‘ لکھنا غلط ہے۔
چاہتا ہوں وہ پھر سے کہہ دے
سب کچھ اگرچہ سن ۔۔
چاہتا تو فاعلن نہیں ہو جاتا جناب؟، یوں بھی دیکھ لیجئے
خواہش ہے وہ پھر سے کہہ دے
سب کچھ گرچہ سُن بیٹھا ہوں
ہجر تُجھے تو موت آ جائے
دیکھ رہا ہے ٹُن بیٹھا ہوں
÷÷ٹن بیٹھنا فصیح محاورہ نہیں، پہلا مصرع اتنا زبردست ہے، کوئی دوسرا مصرع گرہ لگاؤ۔
ردیف کی مجبوری ہے ، یوں کہیں تو
پیتا ہوں اور ٹُن بیٹھا ہوں
نقص زیادہ نکلے میرے
گن کر اُس کے گُن بیٹھا ہوں
۔۔خوب
گاہک اکا دُکا اظہر
آج کمانے پُن بیٹھا ہوں
واضح نہیں۔ کمانے بیٹھے ہو تو بیچ کیا رہے ہو
پاس نہیں جو بیچوں اظہر
اور کماؤں پُن، بیٹھا ہوں
گویا اب صورتحال کچھ یوں بنی
یارو سپنا بُن بیٹھا ہوں
اُس کو ساتھی چُن بیٹھا ہوں
اس کو ہے سنگیت سے رغبت
چھیڑے میں بھی دھُن بیٹھا ہوں
اُس سے مل کر اُٹھ جاؤں گا
دل میں لے کر دھُن، بیٹھا ہوں
خواہش ہے وہ پھر سے کہہ دے
سب کچھ گرچہ سُن بیٹھا ہوں
ہجر تُجھے تو موت آ جائے
پیتا ہوں اور ٹُن بیٹھا ہوں
نقص زیادہ نکلے میرے
گن کر اُس کے گُن بیٹھا ہوں
پاس نہیں جو بیچوں اظہر
اور کماؤں پُن، بیٹھا ہوں