محمد اظہر نذیر
محفلین
کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی نظروں کو کُچھ ایسے میں جھُکا دیکھ آیا
دوست احباب بھی حیراں ہیں مری حالت پر
باولا بول کے کہتے ہیں تُو کیا دیکھ آیا
تُم حسینوں سے کہوں گا اُسے دیکھا کرنا
کیا بتاؤں تُمہیں اب میں جو ادا دیکھ آیا
خیر خواہی نہیں دیکھی تھی کبھی دُنیا میں
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا
ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا
زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا
گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی اظہر
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
اُس کی نظروں کو کُچھ ایسے میں جھُکا دیکھ آیا
دوست احباب بھی حیراں ہیں مری حالت پر
باولا بول کے کہتے ہیں تُو کیا دیکھ آیا
تُم حسینوں سے کہوں گا اُسے دیکھا کرنا
کیا بتاؤں تُمہیں اب میں جو ادا دیکھ آیا
خیر خواہی نہیں دیکھی تھی کبھی دُنیا میں
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا
ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا
زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا
گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی اظہر
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا