محمد اظہر نذیر
محفلین
کیوں کسی موڑ پہ رُکنے کو مچل جاتا ہے
دل سمجھتا ہی نہیں، دوڑ کے پل جاتا ہے
کام پڑتے ہی اُسے یاد مری آتی ہے
بھول جاتا ہے وہ جب کام نکل جاتا ہے
کیا عجب ہے کہ مچلتا ہے تڑپتا ہے یہ دل
سامنے آئے مگر وہ تو سنبھل جاتا ہے
خود پہ نفرت کی یہ شکنیں نہ چڑھی رہنے دو
ان میں دب کے تو شباب اور بھی ڈھل جاتا ہے
کام ہو کوئی، رضا اُس کی مقدم نہ ہوئی
آخرت میں جو بھی ملنا تھا وہ پھل جاتا ہے
جب دعاؤں میں ہو گریہ تو اثر ہوتا ہے
کُچھ مصیبت ہو، بُرا وقت ہو ٹل جاتا ہے
اُس کی عادت سے پریشاں ہوں، کروں کیا اظہر
جس پہ مسرور تھا کل، آج وہ کھل جاتا ہے
دل سمجھتا ہی نہیں، دوڑ کے پل جاتا ہے
کام پڑتے ہی اُسے یاد مری آتی ہے
بھول جاتا ہے وہ جب کام نکل جاتا ہے
کیا عجب ہے کہ مچلتا ہے تڑپتا ہے یہ دل
سامنے آئے مگر وہ تو سنبھل جاتا ہے
خود پہ نفرت کی یہ شکنیں نہ چڑھی رہنے دو
ان میں دب کے تو شباب اور بھی ڈھل جاتا ہے
کام ہو کوئی، رضا اُس کی مقدم نہ ہوئی
آخرت میں جو بھی ملنا تھا وہ پھل جاتا ہے
جب دعاؤں میں ہو گریہ تو اثر ہوتا ہے
کُچھ مصیبت ہو، بُرا وقت ہو ٹل جاتا ہے
اُس کی عادت سے پریشاں ہوں، کروں کیا اظہر
جس پہ مسرور تھا کل، آج وہ کھل جاتا ہے